پاکستان ایک ثقافتی ملک ہے۔ مختلف صوبوں ‘ مختلف خطوں اور ثقافتوں کے اپنے اپنے رنگ ہیں۔ پچھلے دنوں بلوچی کلچر ڈے منایا گیا جسے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بہت پسند کیاگیا اسی طرح سرائیکی کلچر ڈے کی تقریب پورے سرائیکی وسیب اور ملک کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں بھی منائی گئیں۔ اس موقع پر وسیب کی شناخت سرائیکی اجرک کے رنگ جگہ جگہ دیکھنے کو ملے، آج ہم سرائیکی اجرک کی تاریخ کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ سندھی اجرک بسم اللہ پر وسیب کی شناخت اپنی ہو ، ہمیشہ فکر رہتی تھی ۔ سرائیکی اجرک کا خیال مجھے ایک مدت سے تھا۔ میں نے فریدی رومال کو عام کرنے کے ساتھ اس کو اجرک میں تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی ۔ اس سلسلے میں میں کراچی گیا۔ کپڑے کی بڑی مارکیٹ میں ان بیوپاریوں کو بھی ملا جو فریدی رومال تھوک کے حساب سے بیچتے تھے ۔ میں نے ان کو کہا کہ فریدی رومال کو بڑا کر کے اس کی اجرک بنوا دو۔ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا ۔ مجھے سارے کہنے لگے ٹھیک ہے۔ ہماری اپنی شناخت ہے ۔ پر مجھے ایک بات کی ٹینشن تھی کہ آیا فریدی رومال کو دوسرے مسلک والے قبول کریں گے یا نہیں ؟ اگر نہ کیا تو یہ سرائیکی کی قومی شناخت نہ بن سکے گی ۔ مجھے جس بات کی ٹینشن تھی وہ 21 فروری 2012ء کو جناح ہال خانپور ماں بولی کے دن کے موقع پر پروگرام میں سامنے آیا ۔ سئیں نور تھہیم نے سٹیج پر آنے والے سارے مہمانوں کیلئے فریدی رومال کا اہتمام کیا۔ تلاوت کرنے والے کے گلے میں فریدی رومال پہنایا گیا تو اس نے اتار دیا ۔ دوبارہ پہنایا گیا تو اس نے پھر اتار دیا۔ تقریب ختم ہونے کے بعد میں نے ان سے پوچھا تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ’’ یہ بریلویوں کی نشانی ہے ، میں دیوبندی ہوں ۔‘‘مجھے بات سمجھ آ گئی۔ میں نے اس وقت ہی سوچ لیا کہ فریدی رومال کو اجرک بنانے کا منصوبہ کامیاب نہ ہو گا۔ کیونکہ ہم ایسی نشانی چاہتے ہیں جس کا تعلق دھرتی اور ثقافت کے ساتھ ہو اور اس کو سارے فرقے اور وسیب میں رہنے والے ہندو، مسلم عیسائی سب خوشی کے ساتھ پہنیں ۔ میں نے فیصلہ کیا سرائیکی اجرک بنوائی جائے اور اس کیلئے کام شروع کیا جائے ۔ کمپیوٹر پر کچھ ڈیزائن بنائے گئے ۔ جس کو دوستوں نے پسند کیا اور کچھ تجاویز سامنے آئیں۔ کمپیوٹر پر ہم نے جو ڈیزائن بنوائے وہ ٹھپے لگانے والوں کے پاس لے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال نئے ٹھپے نہ بنوائیں ، ہمارے پاس جو ٹھپے ہیں ان کو ہم لگا دیتے ہیں ۔ آپ ان کو دیکھیں ، اگر پسند آئیں تو پھر آپ جیسے کہیں گے ۔ سب سے پہلے ایک پرانے ٹھپے والے جو ملتان کینٹ والی سائیڈ پر بیٹھے ہیں ، ان کو کپڑا لے کر دیا ، اس نے رقم بھی بہت ساری لی مگر کام نہ بنا۔ پھر حسین آگاہی میں گلی کمنگراں والوں کے پاس گئے ، وہاں بھی مزا نہ آیا ۔ اندرون دلی گیٹ گئے ، ہر کوئی نیا مشورہ دے ، کچھ یہ کہتے تھے کہ پانچ دس لاکھ ہووے ، فیصل آباد جا کے وہاں سے کپڑا پرنٹ کراؤ پر وہاں تھوڑا کپڑا نہ بنے گا ، بہت زیادہ ہو تو پھر کام بنے گا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اتنی رقم کہاں سے آئے ؟ مجھے شوکت مغل صاحب نے کہا کہ کرافٹ بازار والوں کے ساتھ مشورہ کر لیں ۔ ہم کرافٹ بازار والوں کے پاس گئے ۔ ملتان کے عالمی شہرت یافتہ نقاش ملک عبدالرحمان سے ملے۔ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا ۔ وہاں کہروڑ پکا کے استا دامیر بخش پہلے سے موجود تھے۔ ملک صاحب نے ان سے ملوایا ۔ ہمارا تعارف کرایا اور کہا کہ ملک امیر بخش صاحب آپ کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں ‘ بات ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کہروڑ پکا آئیں ۔ میں کہروڑ پکا گیا، پیسے دے آیا ، ان کو بتایا کہ 7 مارچ 2014ء کو سرائیکی فیسٹیول ہے ، آپ نے اس سے پہلے دینی ہے۔ انہوں نے مہربانی کی، سرائیکی اجرک تیار ہو گئی۔ سندھی اجرک والے گہرے رنگ نہ تھے پر بسم اللہ ہو گئی۔ پھر استاد امیر بخش صاحب کے ساتھ رابطہ رہ گیا اور بہت سی اجرکیں تیار کرائیں مگر اصل رنگوں والی آس باقی تھی ۔ سرائیکی اجرک کے سلسلے میں سندھ کے شہر جام شورو گیا ، وہاں سے پوچھا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ وہاں کچھ نہ بتایا گیاکیونکہ کو ’’ سرائیکی اجرک ‘‘ والا لفظ اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اس دورے میں میرے مرحوم دوست اور بھائی غلام مصطفی خان کے ساتھ محمد علی خان بھی تھے ۔ انہوںنے کہاکہ جدید دور ہے۔ ٹھپے کا کام چھوڑیں ، کراچی واپس چل کے کسی کو کہتے ہیں ، اجرکیں تیار کر دیں گے ۔ میں پھر کراچی گیا ۔ بات کی تو انہوںنے کہا کہ ’’ بڑا آرڈر دو اور رقم ایڈوانس جمع کراؤ۔‘‘ بڑے آرڈر کیلئے نہ ایڈوانس رقم تھی اور نہ جمع کرائی ۔ پھر ایک مرتبہ حیدر آباد سرائیکی قوم پرست دوست ذوالفقار کھونہارا کو تکلیف دی ۔ انہوں نے بھاگ دوڑ کی ، آخر کار ایک جگہ پر کامیاب ہو گئے ۔ انہوں نے مجھے حیدر آباد بلوایا ۔ میں حیدر آباد گیا اور اجرکوں کا آرڈر دیا ۔ پھر ہم حیدر آباد کے ان دوکانداروں کے پاس گئے جن کا کروڑوں کا کاروبار سندھی اجرک کا ہے۔ وہ اپنی دوکان پر کوئی دوسرا کپڑا نہیں رکھتے صرف اور صرف سندھی اجرک رکھتے ہیں ۔ ہم نے ان کو درخواست کی کہ سرائیکی اجرکیں بنوائیں اور ان کو بطور کاروبار چلانے کی ارداس کی اور کہا کہ یہ اجرکیں آپ سرائیکی وسیب کے دوکانداروں کو بھیجیں پر وہ نہ مانے۔ چھوٹی سی بات یہ بھی کرتا چلوں کہ سرائیکی اجرک کا رنگ نیلا ہے۔ نیلے رنگ سے سرائیکی وسیب کی بہت بڑی جڑت ہے۔ ایک تو پوری دنیا میں نیل کی کاشت اور باہر کے ملکوں میں برآمد کا بڑا علاقہ سرائیکی رہ گیا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ ہمارے سندھ دریا کا نام ’’ نیلاب ‘‘ بھی ہے۔ نیلے رنگ کے لباس کو سرائیکی وسیب کا صوفیانہ لباس بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے وسیب میں پگڑی کو نیل دینا ضروری سمجھا جاتا ہے اور نیل والا پٹکا باندھنے والے کو سرائیکی وسیب میں معزز سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرائیکی کی ایک اکھان ’’ گدڑ نیل دی حوض اچ ونج پووے تاں مہاندرا نی بن ویندا ‘‘ عام بولا جاتا ہے۔ ۔ آج جس کو ٹھٹھہ صادق آباد کہتے ہیں ، اس کا اصل نام ٹھٹھہ پاولیاں ہے۔ اس علاقے میں نیل کی پیداوار اور اس کی تاریخ بھری ہوئی ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ کسی بھی جگہ کا نام تبدیل نہ کرو ، نام تبدیل کرنے کا مطلب اس کی تاریخ کو قتل کرنا ہوتا ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہم نے اپنے نیلاب اور اپنے آپ کو دوبارہ ڈھونڈ لیا ہے۔ رفعت عباس نے سچ کہا کہ : اساں تاں نیلیاں سلھاں اُتے پھل بنْاونْ آلے ہُنْ جے نوبت وحٖ پئی اے تاں ویس وٹیندے پئے ہیں