مجھے اس بات سے زیادہ غرض نہیں کہ پہلے لاہور کے فیض امن میلے اور پھر 29نومبر کو ملک کے مختلف شہروں میں ایشیا کو سرخ بنانے کے خواہش مند طلبہ و طالبات مٹھی بھر تھے یا چند سو تھے‘ اہم بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی داخلی دنیا تک خود کو محدود کرنے والے نوجوان منظر عام پر تو آئے۔ لب بام تو آئے اور ہمیں یہ معلوم ہوا کہ محدود ہی سہی مگر کچھ نوجوان سماج کی بعض اقدار سے گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ یہ تو بعد میں دیکھتے ہیں کہ ان طلبہ و طالبات کو سرخ انقلاب اور پھر اس انقلاب کے نتیجے میں انسانی خون کی ارزانی اور اس خون سے سرخ زمین پر پھیلی ہوئی سرخی کے بارے میں کچھ علم بھی ہے یا نہیں اور کہاں ان طلبہ کا تعلق کچھ این جی او ایز سے ہے اور ان کے پیچھے کون سے کہنہ سال حضرات ہیں جو شام کی منڈیر سے ان حسرتوں کا حساب کتاب لگارہے ہیں جو ان کے دلوں میں کہیں دفن ہو گئی تھیں۔ سرخ سویرا کے خواب پریشاں کے بعد وہ مدتوں خاموش رہے‘ منقارزیر پر رہے اور بقول ڈاکٹر خورشید رضوی: کوئی سوال نہ کوئی جواب دل میں ہے بس ایک درود و الم کا سحاب دل میں ہے میں ان طلبہ و طالبات کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے بھی بہت کچھ یاد کرا دیا۔ بقول شاعر: غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا ویسے یہ عمر رفتہ کچھ ایسی رفتہ بھی نہیں کیونکہ پہلے تعلیم اور پھر تدریس کے دوران میرا نوجوانوں سے واسطہ رہا اور مجھے ہمیشہ طلبہ و طالبات کی لامحدود صلاحیتوں کا اعتراف رہا اور آج کے نوجوان کی بلندیٔ افکار اور رفعت پرواز کا میں قدردان ہوں۔1960ء کی دہائی میں مجھے ینگ سپیکرز یونین گورنمنٹ کالج سرگودھا الیکٹ یا سیلیکٹ ہونے کا موقع ملا۔ سپیکر یونین عام کالج یونین سے مختلف تھی اس کے صدر کا انتخاب تقریری مقابلے کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ کیا خوشگوار دن تھے اور کیسے کیسے نابغہ روزگار حضرات کالج میں طلبہ کی ذہنی ‘ ادبی‘ علمی شعری اور تقریری تربیت کے لئے موجود تھے۔ جناب پروفیسر صاحبزادہ عبدالرسول جو سپیکرز یونین کے سرپرست اعلیٰ تھے‘ جناب پروفیسر خلیل بدایونی جناب پروفیسر غلام جیلانی اصغر اور جناب ڈاکٹر خورشید رضوی۔ ان دنوں کالج یونینز سالانہ مباحثوں کے مقابلے بھی منعقد کروایا کرتی تھیں۔ جن میں بعض اوقات ستر اسی تک ٹیمیںبھی آتی تھیں۔ ہم بھی دوسرے کالجوں میں جاتے کہیں سے ٹرافی لاتے اور کہیں سے خالی ہاتھ لوٹتے ۔گورنمنٹ کالج سرگودھا میں تقریب کیسی بھی ہوتی آخر میں طلبہ کی تان اس مطالبے پر ٹوٹتی’’آنسو آنسو‘‘ اور غیر تو غیر اپنوں نے بچھائے کانٹے آنسو پروفیسر غلام جیلانی اصغر کی مشہور نظم تھی: میرے رونے کا برا مانتی ہو اس سے مطلوب شکایت تو نہیں جناب پروفیسر خلیل بدایونی جب اپنی نظم کانٹے ترنم سے سناتے تو ہال کے سارے نوجوان سامعین بھی ان کے ہمنوا ہوتے: غیر تو غیر اپنوں نے بچھائے کانٹے کیا سنہری دن تھے اب تو یہ خوابوں کا جزیرہ لگتا ہے۔ اسی لئے میں اس حق میں ہوں کہ آج کے طلبہ و طالبات کو یہ خوب صورت اور خوشگوار خوابوں کے جزیرے میسر آنے چاہئیں مگر ذرا ٹھہریے کہ کیسے میسر آنے چاہئیں۔ 1970ء کی دہائی میں جب ہم یونیورسٹی میں تھے پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ اور نیو کیمپس کے درو بام ایشیا سرخ ہے اور جواباً ایشیا سبز ہے کے نعروں سے گونجتے تھے ۔ایشیا کو سرخ کہنے والے ’’سرخے‘‘ کہلاتے تھے اور ایشیا کو سبز کہنے والے جماعتیے کہلاتے تھے ۔ہر سال سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کا معرکہ ہوتا اور ہمیشہ نتیجہ ایشیا سبز ہے کے حق میں نکلتا۔1960ء کی دہائی سے لے کر 1980ء کی دہائی کے اوائل تک ہمیشہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی اکثر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جیتتی رہی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں جمعیت کے حافظ ادریس نے جہانگیر بدر کو‘دوبارہ جمعیت کے ہی حفیظ خان نے ہرایا‘جاوید ہاشمی نے باسط خاں کو جبکہ فرید پراچہ نے قاسم خاں کو شکست دی۔ ان دنوں سبز ایشیا والے طلبہ و طالبات میں یہ نعرہ بہت مقبول ہوا تھا سرخوں کے منہ پر ایک طمانچہ فرید پراچہ فرید پراچہ ‘ عبدالشکور نے سرخ کیمپ کے معروف رہنما غلام عباس کو ہرایا جبکہ لیاقت بلوچ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعدازاں ان لوگوں کے اس دور کے مخالفین کے ساتھ بڑے دوستانہ مراسم استوار ہو گئے گویا: رات گئی بات گئی،ہم اب بھی جناب جہانگیر بدر کی مغفرت کے لئے دعا گو ہیں۔ البتہ آج یہاں میں جب ’’لال لال لہرائے گا تب ہوش ٹھکانے آئے گا اور سرخ ہو گا ‘سرخ ہو گا‘‘ایشیا سرخ ہو گا گانے والے طلبہ و طالبات کو باور کرا دوں کہ مدتیں ہوئیں ایشیا کے سرخ یا سبز ہونے کی بحث ختم ہو چکی ہے ۔ دوسرے سرخ دنیا میں تو طلبہ یونین بلکہ کسی یونین یا کسی آزادی تحریر و تقریر کا کوئی تصور نہیں۔ گورباچوف کی رجعت پسندی سے 1980ء کے اوائل ہی سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پیش گوئی پوری ہو گئی جب اشتراکیت کو ماسکو میں بھی پناہ نہ ملی اب اشتراکیت اور سرخ سویرے کے دونوں مراکز ماسکو اور بیجنگ میں مارکیٹ اکانومی اور انفرادی ملکیت کا اصول رائج ہے اور یہی قانون فطرت بھی ہے۔ طلبہ و طالبات کو معلوم ہونا چاہیے جوتیانمن سکوائر بیجنگ میں 4جون 1989ء کو طلبہ و طالبات کی آزادی تحریر و تقریر اور فریڈم آف پریس کے لئے چلائی گئی تحریک کے نقطہ عروج کے موقع پر جو کچھ ہوا تھا جس میں سینکڑوں سے لے کر ہزاروں نوجوانوں کی ہلاکت کی خبریں آئی تھیں، اس کے بعد وہاں سناٹا ہے مہیب سناٹا۔نہ جانے کس بقراط نے سرخ سویرے کی باسی کڑھی میں ابال لانے کے لئے سرخ ایشیا اور طلبہ یونین کے مطالبے کو یکجا کر لیا ہے۔ یہ تو اجماع خبریں ہے سرخ سویرا تو دو چار بندوں کی یونین سے بھی الرجک ہے۔ نوجوان طلبہ و طالبات حالات کے جبر کے بارے میں طبقاتی کشمکش کے بارے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے بارے میں نئی اور پرانی اقدار میں آویزش کے بارے میں اور بڑی بڑی ڈگریوں کی موجودگی کے باوجود بے روزگاری کے بارے میں اپنے دل کی بات زبان پر لائیں۔ ہم ان کے ساتھ ہارٹ ٹو ہارٹ مکالمے میں کسی جنریشن گیپ کو آڑے نہیں آنے دیں گے۔میں کسی زمانے میں چی گویرا کی کتابوں میں ان کی جدوجہد کی کہانی بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھتا رہا۔ نوجوانوں سے بحیثیت استاد میری درخواست ہو گی کہ وہ سرخ و سبز کے قصہ ماضی کو چھوڑیں اور چاروں صوبوں کے دیہاتی علاقوں کی سیاحت کریں اور مجبور اور مظلوم لوگوں کی حالت زار اور حوا کی بیٹی کی بے بسی کا مشاہدہ کریں اور پھر سیاسی نہیں حقیقی تبدیلی لانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ طالب علم کی حیثیت سے میں سپیکر یونین کا صدر تھا اور پھر 2004ء سے لے کر کئی سالوں تک انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں سٹوڈنٹس ایڈوائزر رہا اسی دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ طلبہ پُرتشدد نہیں تو منہ زور ضرور ہو چکے تھے اکثر طلبہ تنظیمیں اپنی ہر بات دھونس سے منوانا چاہتی تھیں جس کی میں نے بھر پور مزاحمت کی تھی۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ طلبہ سیاست میں کس نے تشدد کا آغاز کیا تھا اور پھر اس کا نقطہ عروج الطاف حسین تھے۔ تاہم میں جناب عمران خان کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ طلبہ یونین کے لئے نہایت سخت قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں اور ان کی سرگرمیاں اپنے اپنے کیمپس تک محدود ہونی چاہئیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا اس وقت تک طلبہ یونین بحال نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ نوجوان ایک بات یاد رکھیں کہ سرخ سویرا طلبہ یونین کی مکمل نفی ہے۔