عرصہ دراز کے بعد سندھ شدید سردی کے لپیٹ میں ہے۔ یہ گلوبل وارمنگ کے اثرات ہیں یا جنگلوں کا خاتمہ اور پانی کی قلت،جس کی وجہ سے موسم سرما سندھ میں مختصر قیام کرنے والے مہمان کی طرح آتا ہے۔ مگر اس بار موسم سرما میں ایسی شدت آئی ہے کہ بڑے بوڑھوں کو بچپن کے دن یاد آگئے ہیں۔ سندھ کے لوگوں کے لیے شاہ لطیف کا رسالہ شاعری بھی ہے اور تاریخ بھی ہے۔ جب ہم شاہ لطیف کی شاعری میں جھانکتے ہیں تب ہمیں وہ سندھ نظر آتا ہے،جواب بہت غریب ہے، بھوکا ہے اور سردی میں کانپ رہا ہے۔ اس تکلیف کے بہت سارے مناظرشاہ لطیف کی شاعری میں ابھرتے اور ڈوبتے ہیں۔ سردموسم اس صورت میں تکلیف کا باعث بنتا ہے جب سر پر چھت نہ ہو۔ جب تن پر گرم کپڑے نہ ہو۔ جب پیٹ میں کھانا نہ ہو۔ جب ساتھی ساتھ نہ ہو۔ وہی جوش ملیح آبادی کے’’ یادوں کی بارات‘‘ والی بات کہ ’’یا تو روئی ہو یا دوئی ہو‘‘جب روئی بھی نہ ہو اور دوئی بھی نہ ہو اور بقول اقبال: ’’زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر سی تیزی‘‘ جب سرد ہوا تلوار کی طرح کاٹ رہی ہو۔ ا س وقت کا منظر پیش کرتے ہوئے شاہ لطیف نے کیا خوب لکھا ہے : ’’شدید سردی ہے اور میرے پاس تو لحاف بھی نہیں نہ میرے پیٹ میں کھانا ہے اور نہ پہلو میں میرا جیون ساتھی ہے ان کے کیا حال پوچھتے ہو جن کے گھر بھی ٹوٹے پھوٹے ہوں‘‘ شاہ لطیف نے سندھ کے تین سو سال قبل والے حالات پیش کیے ہیں۔ اس دور میں تو سندھ میں آبادی کم اور پانی بہت زیادہ تھا۔ مگر پھر بھی لوگوں کے رہن سہن میں سکھ کا سایہ تک نہیں تھا۔ کیوں؟ کیا سندھ کے لوگ عقل سے عاری تھے؟ سندھ نے تہذیب کے دیپ جلائے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ تین سو برسوں کے سفر میں بھی سندھ اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ا س کا اصل سبب افراد نہیں بلکہ وہ نظام ہے جو انسان کے وجود سے خون کی آخری بوند بھی نچوڑ لیتا ہے۔ وہ نظام ماضی کی مقدس امانت کی طرح آج بھی ہمیں اپنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہے۔ جب تک نظام تبدیل نہیں ہوگا تب تک انسان سردی میں ٹھٹھرتے رہیں گے۔ اگر انسانوں کو سردی کے عذاب سے بچانا ہے۔ اگر انسانوں کو سرد موسم کا مزہ دلانا ہے تو پھر ا س گلے سڑے نظام کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہے جو صدیوں سے ہم پر مسلط ہیں۔ یہ قدرت کا فیصلہ نہیں کہ انسان بھوکے رہیں۔ یہ قدرت کا فیصلہ نہیں کہ بہت سارے انسان ایک خاندان کے پاس معاشی طور پر مقید رہیں۔ یہ قدرت کا فیصلہ نہیں کہ بازاروں میں لکڑی کے مجسموں پر قیمتی شالیں آویزاں ہوں اور گوشت پوست کے انسان سردی میں کانپتے نظر آئیں۔ یہ قدرت کا فیصلہ نہیں کہ 21ویں صدی میں بھی ہمارے گھروں میں گیس نہ آئے اور بھوکے بچے ٹھنڈے چولہے کو تکتے رہیں۔ یہ قدرت کا فیصلہ نہیں کہ آزاد کشمیر کے لوگ برف میں دفن ہوجائیں۔ یہ قدرت کا فیصلہ نہیں کہ بلوچستان کے لوگ شدید سردی کی وجہ سے مر جائیں۔ یہ قدرت کا فیصلہ نہیں ہے کہ لوگ موسموں کے مزے نہ لوٹ سکیں اور خود لٹ جائیں۔ یہ قدرت کا فیصلہ نہیں۔ یہ اس نظام کا نتیجہ ہے جس نے ہمارے پیروں کو زنجیروں سے جکڑ دیا ہے۔ جو ہم کو ہلنے تک نہیں دیتا۔ یہ نظام جس میں ایک سیاسی چور اور اقتداری ڈاکو پوری قوم کو یرغمال بنا کر قومی دولت لوٹ لیتا ہے اور قوم کے بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظرآتے ہیں۔ یہ اس نظام کا قصور ہے جس کی وجہ سے ہم غیرمنظم حالت میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک دن ہمارے درد دور ہوجائیں گے۔ اگر ہمارے درد صرف انتظار سے دور ہوجاتے تو آج ہم اچھے حالات میں ہوتے۔ ہم نے انتظار کے علاوہ اور کیا ہی کیا ہے؟ ہم نے صدیوں سے انتظار کیا ہے مگر ہمیں کیا حاصل ہوا ہے؟ ہمیں وقت کے ساتھ مزید تکالیف ملی ہیں۔ وقت کے ساتھ ہمارے حالات اور برے ہوئے ہیں۔ کیا یہ اتفاق کی بات ہے کہ آزاد کشمیر میں برف کے تودے مکینوں کے گھروں کو قبروں میں تبدیل کردیں؟ اگر ہمارا نظام بہتر ہوتا تو ہم حادثات سے قبل تحفظ کے انتظامات مکمل کرلیتے۔ یہ بھی اس نظام کی خرابی ہے کہ وہ اپنے اعمال پر اتفاق یا حادثات کا پردہ ڈال دیتا ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی طرف انگلی نہ اٹھے۔ وہ آشکار نہ ہو۔ اس لیے جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے اور لوگوں کے اندر جذبات کا طوفان انگڑائی لیتا ہے تب ہمارا نظام روایتی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کو قدرت کا کام قرار دیکر خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ نظام کے اس بہروپیے پن کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘ یہ حادثات نہیں ہیں۔ یہ اس نظام کے نتائج ہیں جن کی وجہ سے ہم اپنی زندگی کے حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ کیا یہ ایک اتفاق ہے کہ سندھ کے جو حالات شاہ لطیف نے دیکھے ہم ان کی رحلت کے تین سو برس بعد بھی انہیں حالات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ حالات دعاؤں سے تبدیل ہونگے؟ نہیں۔ یہ حالات ہماری پرامن اور مستقل جدوجہد کے نتیجے میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے منظم ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی مگر ہم کو یہ بات بھی نظر میں رکھنی ہوگی کہ تب تک جدوجہد بے معنی اور بے مقصد ہوا کرتی ہے جب تک ہمیں اپنے دشمن کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہوگی۔ ہمارا مخالف اور ہمارا دشمن کوئی فرد یا کوئی گروہ نہیں بلکہ وہ نظام ہے جو اقلیت کو خوش رکھنے کے لیے اکثریت کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کرتا ہے۔اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے جب تک جدوجہد نہیں ہوگی تب تک ہمارے حالات میں برائے نام بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔جو تبدیلی ہم چاہتے ہیں وہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم اس نظام کو ختم کریں جو جبر اور استحصال کے ذریعے ہم پر نافذ ہے۔جس کے باعث ہم اپنی زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے موسم بھی انسانوں کے لیے ناقابل برداشت بن جاتے ہیں۔ہم نے ماضی میں اس گلے سڑے نظام کے خلاف جدوجہد بھی کی ہے مگر ہماری جدوجہد مستقل طور پر جاری نہیں رہی۔ اگر ہماری جدوجہد مستقل طور پر جاری رہتی تو آج ہم اس نظام کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہوتے۔ ہم اس نظام کے ہاتھوں میں کھلونوں کی طرح ہیں۔ یہ نظام ہم سے کھیلتا ہے اور جب ا س کا جی بھر جاتا ہے تب وہ ہمیں توڑ دیتا ہے۔ سندھ کے حکمران تو ہمیشہ مزے میں رہے ہیں۔وہ وڈیرے اور یہ زردار تو ہمیشہ سے عیاشی کرتے آئے ہیں مگر سندھ کے عوام جس طرح کل دکھی تھے اسی طرح وہ آج بھی دکھی ہیں۔ وقت تبدیل ہوتا رہا ہے مگر حالات تبدیل نہیں ہو پائے ہیں۔ ان حالات کو کس طرح تبدیل کیا جائے؟ اس سلسلے میں ان سب کو مل بیٹھنا ہوگا جو اس نظام کی وجہ سے تکلیف کا شکار ہے۔ وہ سارے لوگ جو سردی میں کانپ رہے ہیں۔ وہ لوگ جب مل کر جدوجہد کریں گے تب نظام تبدیل ہوجائے گا۔ جب نظام تبدیل ہوجائے گا تب حالات تبدیل ہوجائیں گے۔ جب حالات تبدیل ہوجائیں گے تب ہمارے غریب لوگوں کے ساتھ موسموں کا سلوک تبدیل ہوجائے گا۔ کیا ہمارے عوام کا حق نہیں کہ وہ بھی موسموں کا لطف اٹھائیں۔ ان کا حق ہے۔ یہ حق انہیں صدیوں سے نہیں ملا۔ سندھ کو موسم سرما میں جس طرح شاہ لطیف نے دیکھا تھا آج تین صدیاں گزرنے کے بعد ہم اسی حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ حالات کب بہتر ہونگے؟ یہ نظام کب ختم ہوگا؟ موسم کب بدلیں گے؟