برطانوی حکومت نے اس سے قبل استحصال زدہ طبقات (DepressedClass) کیلئے مراعات کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں پیشے کی بنیاد پر فہرست بنائی گئی تھی۔ اعجاز علی کے مطابق شروع میں اس ریزرویشن کا دائرہ بہت وسیع تھا اور اس پر کسی طرح کی مذہبی قید نہیں تھی۔ چونکہ مسلمانوں کی زیادہ ترآبادی پیشہ ور ہے اس لئے 1936کے آرڈ ر کے مطابق تیار کردہ لسٹ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی شامل تھی اور مہاراشٹر میں مسلمان اس کا فائدہ بھی اٹھارہے تھے ۔ مگر اس پر مذہبی قید لگانے سے مسلمانوں کے ساتھ سکھ ، بدھ ،عیسائی بھی اس زمرے سے باہر ہوگئے ۔ لیکن بعد میں سکھوں اور بدھوں کو دوبارہ شامل کر لیا گیا لیکن مسلمانوں کی آبادی آج بھی اس زمرے سے باہر ہے۔بلکہ پسماندہ اور ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کیلئے لالچ کا بھی سامان مہیا کیا گیا ہے کہ مراعات حاصل کرنے کیلئے دوبارہ ہندو مت قبل کرلو ۔ فرقہ پرستوں کے علاوہ اس میں سب سے بڑا رول سیکولرزم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس کا تھا، جس نے نہ صرف ملک کے اقلیتوں کو ریزر ویشن سے محروم کیا بلکہ آئین کی روح کی بھی خلاف ورزی کی۔ ظلم و زیادتی کی علامت سمجھی جانے والی بر طانوی حکومت نے ملک کے اقلیتوں کو جو مراعات دی تھیں ، آزادی کے بعد انکو چھین لیا گیا۔ 1920کی دہائی میں جب صدیوں سے دبے کچلے دلتوں نے اپنے حقوق مانگنے شروع کئے اور ذات پات کے نظام کے خلاف تبدیلی مذہب کی دھمکیاں دیں، تو ستمبر 1930کو مہاراشٹر اکے شہر پونا میں دلت لیڈر بھیم راوٗ امبیڈکر اور مہاتما گاندھی کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا کہ دلتوں کو قانون ساز اداروں میں 18فیصد ریزرویشن دیجائیگی۔ اس سے قبل امبیڈکر نے اعلان کیا تھا کہ بڑی تعداد میں دلت اسلام یا مسیحت قبول کرینگے، جہاں ذات پات کا نظام موجود نہیں ہے۔ مگر ان کو بتایا گیا کہ اس سے ملک بھر میں دلتوں کا قتل عام شروع ہوجائیگا اور ان کی زندگی مزید اجیر ن ہوجائیگی۔ پونا پیکٹ کے نام سے موسوم اس معاہدہ پر اعلیٰ ذاتوں کی طرف سے مدن موہن مالویہ نے دستخط کئے۔ 2005میں جسٹس راجندر سچرکمیٹی اور بعد میں جسٹس رنگناتھ مشراکمیشن نے آئین میں مناسب ترمیم کی سفار ش کرتے ہوئے مسلم اورعیسائی دلتوںکو بھی شیڈول کاسٹس یعنی دلت ریزرویشن کے زمرے میں رکھنے کی سفارش کی تھی۔ سچر کمیٹی نے تو یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ دلتوں کیلئے لوک سبھا کی 84 محفوظ نشتوں میں اکثریت ان سیٹوں کی ہے، جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ چونکہ ان سیٹوں سے کسی مسلم امیدوار کی جیت متوقع ہوتی ہے، اسی لئے ان کو دلتوں کیلئے مخصوص کرکے کسی مسلمان امیدوار کیلئے نامزدگی کے ہی دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ جسٹس سچر نے کہا تھا کہ بجائے مسلم اکثریتی سیٹوں کو محفوظ کرنے کے، دلت اکثریتی علاقوں کی نشستوں کو محفوظ کیا جائے، جو کہ ایک معقول سفارش تھی، کہ اگر آپ مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دے سکتے ہیں، تو کم از کم مسلم اکثریتی علاقوں سے ا ن کو انتخاب لڑنے سے روکنے کے سامان تو مہیامت کراوٗ۔ مگر جب پچھلی کانگریس حکومت نے ہی ان سفارشات کو نافذ کرنے میںغیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، تو موجودہ ہندو قوم پرست حکومت سے گلہ ہی کیا ہے۔ رنگناتھ مشرا رپورٹ نے من موہن سنگھ حکومت پر زور دیا تھا کہ عیسائی اور مسلم دلتوں کیلئے بھی ہر سطح پر ویسے ہی دلت کوٹہ ہو، جیسے کہ ہندو دلتوں کو میسر ہے۔ کیونکہ وہ دلت جو مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ان کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ اگر مسلمان یا عیسائی مذہب اختیار کرتے ہیں تو وہ دلت کوٹہ سے محروم ہوجائیں گے۔ اس سفارش کو لاگو کرنے سے دلتوں کا مسلم یا عیسائی عقیدہ اختیار کرنے کا راستہ کھل جاتا۔ اگر اس ر پورٹ کا اطلاق ہوجاتا، تو چند دہائیوں میں ہی بھارت کا سیاسی ،سماجی، مذہبی ،تعلیمی اور معاشی نقشہ تبدیل ہوجاتا۔ بقول معروف صحافی ظفر آغا، رنگناتھ مشرا رپورٹ، مسلم تاریخ میں 1857ء کے بعد کا ایک اہم سنگ میل تھی ۔ 1857وہ سال تھا، جب مسلمان کے ہاتھوں سے اس ملک کا اقتدار چلا گیا اوراس کے بعد یہ بھی طے ہوگیا کہ آزاد ی کے بعد جو اقتدار ملے گا وہ شاہی نہیں بلکہ جمہوری نظام کی شکل میں ہوگا، جس میں عددی قوت ایک اہم جز ہوگی۔مگر 1857کے بعد مسلمانوں نے بحیثیت مسلمان، نظام میں اپنے حصے کی جو مانگ کی تھی ، رنگناتھ مشرا رپورٹ نے کسی حد تک اس مانگ پر اپنی مہر ثبت کردی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں فرقہ پرستی اور فاشزم کو اگرلگام دینی ہے، تو مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان کسی تال میل کی گنجائش نکالنی ہوگی، کیونکہ دونوں سسٹم کے ستائے ہوئے ہیں۔ مگر اسکے لئے ابھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں مسلم ووٹ کی طرح دلت ووٹوں کی بھی بے اثر کرنے کی سعی کریں گے، تاکہ تعداد کے باوجود وہ ان کیلئے خطرہ ثابت نہ ہونے پائیں۔ لہٰذا جہاں گودی میڈیا کے ذریعے مسلم آواز کو دبانے کیلئے پاکستانی، سکھ آواز کو کچلنے کیلئے خالصتانی لیبل لگائی جاتی ہے ، وہیں دلت آوازوں کو خاموش کرنے لئے نکسل وادی کی اصطلاح مرتب کی گئی ہے۔ وقت مگر آگیا ہے کہ سردار پٹیل کے فرقہ پرست پیروکاروں سے نمٹنے کیلئے یہ سبھی آوازیں اکھٹا ہوں۔