سابق وزیر اعظم نواز شریف بالآخر اپنے علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوئے جو کہ انہیں جانا ہی تھا۔ ان کا علاج لندن میںکسی اسپتال میں نہیں بلکہ ان فلیٹوں میں ہوگا جو الحمدللہ ان کے ہیں۔حکومت نے ان کی روانگی کا تمام تر بوجھ لاہور عدلیہ پہ ڈال دیا اور خود بھولی سی بن کر بیٹھ رہی۔ تحریک انصاف کی بہرحال یہ روایت رہی ہے کہ اس نے عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیا ہے۔ پانامہ کیس میں بننے والی جے آئی ٹی سے نواز شریف کے نااہل ہونے تک تحریک انصاف نے عدلیہ کے بظاہر متنازعہ فیصلوں پہ بھی کبھی انگشت نمائی نہیں کی۔اس کی تاریخ کسی اعلی عدلیہ کے ججوں کو خریدنے اور بلیک میل کرنے کی روایت سے آلودہ ہے اورنہ ہی سپریم کورٹ پہ حملے کا داغ اس کے دامن پہ ہے۔اپنی اس روایت کے تناظر میں بہترین فیصلہ یہی تھا کہ نون لیگ کو کورٹ سے رجوع کرنے پہ مجبور کردیا جائے۔ ایسا ہی ہوا اور عدلیہ نے فیصلہ دے دیا۔ فریقین نے اپنا اپنا دامن جھاڑا اور اپنی اپنی پیٹھ ٹھونک کر خود کو داد دیتے رہے۔ فتح بالآخر حق یعنی فریقین کی ہوئی اور ملک میں قید دس ہزار مریض قیدی خون تھوکتے رہے۔ آئین کیا ہوتا ہے اور قانون کیوں بنایا جاتا ہے ۔ عدالتیں کیوں لگائی جاتی ہیں اور قوم کا کثیر سرمایہ ان میں کیوں جھونکا جاتا ہے۔ اور کیا قانون کی بالادستی میں انسانی پہلو کا اطلاق صرف طاقتوروں پہ ہوتا ہے کمزوروں کے نیٹ ورک پہ یہ سہولت کیوں میسر نہیں ، اس سوال کا جواب بیک وقت مقننہ، حکمران،متحدہ اپوزیشن، ماہرین قانون و انصاف اور اداروں کے ذمے ہے۔ اگر نواز شریف کو قانونی نکات پہ بیرون ملک علاج کی سہولت موجود ہے تو ملک کی جیلوں میں ایک دوسرے پہ سوار بے شمار بے گناہ اور گناہگار انسانی ہمدردی کے مستحق کیوں نہیں ہیں۔ یہ آتش فشاں ذہنوں میں ابل رہا ہے ۔ یہی آتش فشاں وزیر اعظم عمران خان کے ذہن و دل میں بھی چنگاریاں اڑا رہا ہے جنہوں نے اپنی تقریر میں اس کا بے دھڑک اظہار کیا۔ یہ سوال قابل غور ہے کہ سول بالادستی کے اس شور و غوغا میں ملک کا سپریم لیڈر غصے میں کیوں ہے لیکن یہ بات قابل ملامت ہے کہ کچھ حلقوں کی طرف سے وہی تنقید و استہزا کا نشانہ بھی ہے۔ اخلاقیات کا اگر کوئی تعلق قانون اور اس کے نفاذ سے ہے تو ہم بحیثیت قوم مکمل طور پہ ناکام ہوچکے ہیں جہاں ایک طبقہ اس بات پہ خوشیاں منا رہا ہے کہ اس کا لیڈراپنی جان بچانے کے لئے بیرون ملک چلا گیا ہے اور جس دھج سے گیاہے اس سے شان نہیں محض جان سلامت رہتی ہے۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔ اسی غم و غصہ میں وزیر اعظم عمران خان نے عمر رسیدہ قیدیوں ، جو کسی سنگین جرم میں ملوث نہ رہے ہوں،کی رہائی کا بندوبست کرنا شروع کردیا ہے۔ اگر نواز شریف اربوں کی کرپشن میں ملوث ہوکر پورے پروٹوکول کے ساتھ پرتعیش ائیر ایمولینس میں اپنے بے حساب زاد راہ کے ساتھ جو کسی طور پہ چار ہفتوں کے لئے معلوم نہیں ہوتا،لندن اور امریکہ روانہ ہوسکتے ہیں تو جیلوں میں معمولی نوعیت کے نواز شریف ہی کے ہم عمر مجرم کاہے کو عمر قید بھگتتے رہیں۔ حکومت کا مذکورہ اقدام یہی ثابت کرتا ہے کہ وہ موجودہ نظام انصاف سے کس حد تک شاکی ہے۔بالفرض اسی غم و غصے میں نظام انصاف میں وہ اصلاحات ہوجاتی ہیں جو مطلوب و مقصود ہیں ۔توکم سے کم اتنا ضرور ہوگا کہ عوام میں پایا جانے والا احساس محرومی کچھ کم ہوسکے گا۔ ریاست مدینہ کا اولین اصول خلیفہ وقت کا احتساب تھا ، عوام کا نہیں۔عوام میں سے کوئی بھی انگلی اٹھا کر بلا خوف وخطر پوچھ سکتا تھا کہ تمہارا قد دراز ہے، جس کپڑے میں میرا کرتا بنا ہے اس میں تمہارا کرتا نہیں بن سکتا تو یہ اضافی کپڑا آیا کہاں سے؟اور خلیفہ وقت یہ نہیں کہتا کہ میں نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کیا ہے یا مجھے عدالتوں سے ریلیف ملا ہے یا آئین کے تحت مجھے استثنیٰ حاصل ہے اس لئے حد ادب گستاخ تمہیں یہ سوال کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔ اس کے برعکس وہ خوف خدا سے کانپ اٹھتا اور اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ بتائو یہ کپڑا کہاں سے آیا ، ورنہ تیرا باپ قیامت تک اس منبر پہ نہیں چڑھے گا ۔ بیٹا بتاتا ہے کہ آدھی دنیا پہ حکمران اس کے باپ کے حصے میں دوسروں سے کم کپڑا آیا تھا اور کرتا اتنا بوسیدہ ہو چکا تھا کہ پہنا نہ جاتا تھا تو میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے باپ کو دے دیا۔ تب سوال کرنے والے کو اطمینان ہوتا ہے کہ وہ عہد فاروقی میں جینے اور مرنے والا خوش نصیب ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں سے اس تقوی کی نہ توقع کرتے ہیں ، نہ ہی یہ انصاف کی بات ہے ۔انصاف کی بات بس یہ ہے کہ عوام اور اشرافیہ میں تفاوت تھوڑا انسانی حد تک سکڑ جائے اور اس کی خرابی کچھ کم ہوجائے۔ عمران خان کا غصہ بالکل بجا ہے۔وہ آتش بجاں ہوکر بھڑکے ہیں تو ٹھیک بھڑکے ہیں۔ان کا بس چلتا تو کبھی ہم یہ منظر نہ دیکھتے۔ ان کا بس لیکن چل کیوں نہیں رہا یہ اپنی جگہ سوال ہے۔ہم نے تیس سال قبل علاج کی غرض سے لندن بھاگنے والے کو تیس سال لندن سے پارٹی چلاتے دیکھا۔ایڑی چوٹی کا زور لگا نے کے باوجود ہم اس کا کچھ نہ بگاڑ پائے۔ ایک آمر جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں تھا، علاج ہی کے بہانے پیشیوں سے بھاگتا رہا۔ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ پائے۔شریف خاندان کے بیٹے داماد اور سمدھی سب مفرور ہیں اور قانون ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ مجھے عمران خان کا انتخابات سے قبل وہ بیان یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ جس نے نواز شریف کی پشت پہ ہاتھ رکھا ہوا ہے، کبھی انہیں برسراقتدار نہیں دیکھنا چاہے گی ۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے عمران خا ن کی مراد امریکہ ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ سرمایہ دار اشرافیہ تھی جو دنیا کی اٹھانوے فیصد دولت پہ قابض ہے ۔ باقی دو فیصد انسان خون تھوکتے، فاقے کرتے اور معمولی جرائم پہ عمرقید کی سزا کاٹتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار اشرافیہ جولین اسانج کو تو نشان عبرت بنا دیتی ہے اور اپنے لاڈلوں کو ہر حال میں مکھن سے بال کی طرح نکال لے جاتی ہے۔