وزیر دفاع پرویز خٹک نے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020ء پاکستان ایئر فورس (ترمیم) ایکٹ 2020ء اور پاکستان نیوی(ترمیمی) ایکٹ 2020ء ایوان میں پیش کر دیئے ہیں۔ مجوزہ قانون سازی کے تحت آرمی‘ فضائیہ اور نیوی چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر60سال سے بڑھا کر 64سال کرنے یک تجویز ہے جبکہ مدت ملازمت میں توسیع کا صوابدیدی اختیار وزیر اعظم کے پاس ہو گا کہ وہ 60برس کی ملازمت پوری کرنے والے ان اعلیٰ افسران میں سے کسی کو مدت ملازمت میں توسیع دیدیں۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی لگ بھگ تمام بڑی جماعتوں نے مجوزہ ترمیمی قانون کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر کچھ اپوزیشن جماعتوں کے حامی اپنی قیادت سے خفا ہیں اور سابق بیانئے سے روگردانی پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت جس انداز میں عمران خان پر تنقید کر رہی تھی اس سے اشارہ ملتا تھا کہ فوجی قیادت کو اس صورت حال کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔ آرمی چیف کی مدت توسیع کا معاملہ اس وقت یکایک قومی بحث کی حیثیت اختیار کر گیا جب وزیر اعظم عمران خان نے ریاست کو درپیش داخلی و خارجی خطرات اور خطے کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔ توسیع کے نوٹیفکیشن کے خلاف ایک شہری نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ بعدازاں درخواست گزار نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی لیکن اس وقت کے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے درخواست کو سوموٹو میں تبدیل کر کے معاملے کو نیا موڑ دیدیا۔ معاملے کی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا اور ایسا کوئی قانون پارلیمنٹ آج تک وضع نہیں کر سکی جو توسیع کے معاملے کا احاطہ کرتا ہو۔ بعدازاں تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف کو چھ ماہ تک توسیع کا حکم دیتے ہوئے حکومت کو یہ ہدایت کی کہ اس عرصہ میں پارلیمنٹ سے قانون سازی کرا لی جائے وگرنہ چھ ماہ بعد آرمی چیف ریٹائرڈ تصور ہوں گے۔ پاکستان مسلسل انتخابات کے باوجود سیاسی لحاظ سے عدم استحکام کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ذرا سی بات پر حکومت جانے کی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔ اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت ابھی بمشکل اپنا ڈیڑھ سال پرا کر رہی ہے مگر گزشتہ برس کے اواخر میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور پھر نیب کے اختیارات کا ازسر نو ترتیب دیا جانا بعض حلقوں کو شہہ دیتا رہا کہ وہ حکومت کی رخصتی کی باتیں بنائیں۔ مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کوپانامہ سکینڈل میں سزا کے وقت سے جو طرز عمل اختیار کر رکھا تھا اس میں سکیورٹی اداروں پر مسلسل سخت تنقید کو بطور پالیسی اہمیت دی جا رہی تھی۔ مسلم لیگی رہنما کئی بار فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف بیانات پر اپنے کارکنوں کی سرزنش نہ کر کے یہ تاثر دیتے رہے کہ ان بیانات میں ان کی مرضی شامل ہے۔ مسلم لیگ ن کے حامی اسے نواز شریف کا بیانیہ قرار دیتے اور اس پر فخر کرتے کہ ان کی قیادت اس طرح کا طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے۔ پیپلز پارٹی سوچ کی حد تک ایسا ہی تصور رکھتی تھی جو مسلم لیگ ن کی قیادت کا تھا تاہم مختلف حکومتی اقدامات پر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم عمران خان کو ’’سلیکٹڈ ‘‘ اور ’’لاڈلا‘‘ ہونے کا طعنہ دیتے۔ دونوں بڑی جماعتوں کا لہجہ اس قدر پر شور تھا کہ جب سپریم کورٹ نے حکومت کو قانون سازی کی ہدایت کی تو ان کے حامی حلقے یہ حساب کتاب جوڑنے بیٹھ گئے کہ اب حکومت پھنس گئی ہے اور حکومت کو اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنے کے لئے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر آنا پڑے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں اتفاق رائے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم کی بات سے اختلاف اس لئے ممکن نہیں کہ جمہوریت کسی فرد کی رائے نہیں بلکہ بہت سے افراد کی اجتماعی رائے سے فیصلے کرتی ہے۔ بھلے مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کے قائدین آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ہوں مگر ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ توسیع کے معاملے پر ان کے ادوار میں جس اہم معاملے پر قانون سازی نہ ہو سکی اس بار وہ ضرور اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ رہی بات کارکنوں کے اظہار خفگی کی تو سیاسی رہنمائوں کو یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کے خلوص اور وفاداری کو ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ذاتی مفادات کی تشریح میں کرپشن کے مقدمات‘ اختیارات سے تجاوز اور اقربا پروری شامل ہے۔ جب ریاستی ادارے اپنا آئینی و قانونی کردار ادا کرتے ہوئے کارروائی کرتے ہیں تو ان کی کارروائی کو سیاسی انتقام یا پھر کسی ریاستی ادارے کے سر بطور الزام تھونپ دیا جاتا ہے۔ ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوا ہے۔ ماضی کے طرز عمل کے برعکس اس باراپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے آرمی‘ فضائیہ اور نیوی کے ایکٹ میں ترمیم پر حمایت کا فیصلہ کر کے یہ ثبوت دیا ہے کہ وہ قانون سازی کے حوالے سے اپنے فرائض ادا کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کے اس طرز عمل کو ناپسندیدہ قرار دیا جاتا رہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے قانون سازی کی بجائے آرڈیننس جاری کر رہی ہے۔ حکومت پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ اہم امور پر پارلیمانی فیصلوں کے لئے ماضی کی حکمران جماعتوں کو اعتمادمیں نہیں لیتی۔ حکومت نے سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون میں ترمیم کے لئے اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر کم از کم اس معاملے کو اتفاق رائے سے طے کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اس معاملے میں افہام و تفہیم نے گنجائش پیدا کی ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف معاشی و خارجی مسائل سے نمٹنے کے لئے اسی طرح کی مفاہمت کا ثبوت دیں گی۔