اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی)گیس انفراسٹر ڈیویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 69ارب روپے معاف اور سبسڈی لینے والے کھاد کارخانوں کے بااثر مالکان غریب کسانوں اور وفاقی حکومت سے دوہرا ہاتھ کرگئے ۔ کھاد کارخانوں کے مالکان کی جانب سے 4ارب روپے سبسڈی لینے کے باوجود کھاد مہنگی کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔ وفاقی حکومت نے کھاد مہنگی کرنے پر نوٹس لیتے ہوئے وزارت صنعت وپیداوار کو رپورٹ ای سی سی میں پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے ۔ وزارت صنعت وپیداوار کو کھاد کی قیمتوں کے موجودہ میکنزم پر نظرثانی کرنے کی بھی ہدایت جاری کردی ہے ۔کسانوں کو مہنگی یوریا کھاد سے بچانے کیلئے وفاقی حکومت نے 12ارب روپے مزید سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے 23جنوری کو وفاقی کابینہ سے 69ارب روپے معاف کرنے کی سمری منظورکرائی۔ 92نیوز کوموصول سرکاری دستاویز کے مطابق کھاد کارخانوں کے مالکان کھاد کی قیمت ڈی ریگولیٹ ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں۔ وفاقی حکومت مہنگی آر ایل این جی کھاد تیار کرنے والے کارخانوں کو سستے دام پر فراہم کررہی ہے تاکہ کسانوں کو مہنگی کھاد نہ خریدنی پڑے ۔ وزارت صنعت وپیداوار کی جانب سے کھاد کی قیمتوں کے میکنزم پر نظرثانی کی رپورٹ جمع ہونے کے نیا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ سرکاری دستاویز کے مطابق کھاد کارخانوں کے مالکان نے کھاد کی فروخت پر کسانوں سے گیس سرچارج کی مد میں 138ارب روپے وصول کئے مگر 4سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہ رقم قومی خزانے پر جمع نہ کرائی گئی۔سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کھاد کارخانوں سے وابستہ حکام سے مذاکرات کئے اور 23جنوری 2019کو وفاقی کابینہ سے کسانوں سے وصول کی گئی یگیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سرچارج کی 50فیصدرقم معاف جبکہ 50فیصد قومی خزانے میں جمع کروانے کی منظوری حاصل کی۔ 50فیصد رقم چھوٹ کے فیصلے دیگر شعبوں کیلئے بھی نافذ کیا گیا جس کسانوں اور دیگر صارفین سے گیس سرچارج کی مد میں مجموعی طور پر وصول کئے گئے 208ارب روپے معاف کردئیے گئے ۔ اربوں روپے معاف کرنے کیساتھ مستقبل میں فروری 2019 سے سرچارج کا ریٹ بھی 50فیصد کم کرنے کی منظوری لی گئی۔ کیپٹوپاورپلانٹس کے مالکان کو 91ارب جبکہ سی این جی مالکان کو 80ارب روپے معاف کردئیے گئے ۔ آئی پی پیز کو 4.8ارب،کے الیکٹرک اور جنکوز کو 28ارب روپے معاف کئے گئے ۔جنرل انڈسٹری سے وابستہ مالکان کو 21ارب روپے معاف کئے گئے ۔ 50فیصد چھوٹ حاصل کرنے کے باوجود بقایا 208ارب روپے تاحال قومی خزانے میں جمع نہیں کروائے گئے ۔ بیشتر کمپنیاں بقایا رقم سرٹیفکیٹ کے ذریعے ایف بی آر سے جی ایس ٹی ریفنڈ کی مد میں ایڈجسٹ کرنا چاہتی ہیں۔ وزارت صنعت وپیداوار کے مطابق 2016میں حکم امتناع حاصل کرنے کے باوجود کسانوں سے گیس سرچارج وصولی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزارت صنعت وپیداوار کی دسمبر 2018کی رپورٹ کے مطابق کسانوں سے یوریا کھاد کی فی بوری پر فروخت پر گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 405روپے وصول کئے جارہے ہیں۔یوریا کھاد کی فی بوری کی قیمت 1750روپے ، جس پر کل خرچ 1283روپے ہے ۔ یوریا کھاد کی فی بوری پر 405روپے سرچارج،456روپے گیس،34روپے جی ایس ٹی اور دیگر اخراجات کی مد میں 388روپے وصول کئے جارہے ہیں۔