ایک سحر انگیز منظر ہے۔ آقا کریم،ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓکے جھرمٹ میں مسجد نبوی میں جلوہ افروز ہیں۔ ایک پریشان حال شخص مسجدِ نبوی میں داخل ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے عرض پرداز ہوتا ہے کہ حضور ﷺکل سے میرا بیٹا گْم ہو گیا ہے۔ مل نہیں رہا۔ دْعا فرمائیں کہ مل جائے۔ اسی دوران ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارے بیٹے کو آج ساتھ والے گاؤں کے میلے میں دیکھا ہے۔ وہ پریشان شخص تیزی سے پلٹتا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اْسے واپس بلاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب تو میلے میں اپنے گْم شدہ بیٹے کو دیکھے تو اْسے میرا بیٹا کہہ کر نہ پکارنا بلکہ اْسکے نام سے پکارنا کہ ممکن ہے کہ وہاں کچھ یتیم بچے بھی ہوں۔ اْنہیں کہیں تکلیف نہ پہنچ جائے کہ اْنہیں بیٹا کہہ کر پکارنے والا اس دْنیا میں کوئی نہیں۔ سبحان اللہ یہ واقعہ بار بار پڑھا۔ ہر مرتبہ آنکھیں نمناک ہوئیں۔ پھر انسانی تاریخ کے کئی بڑے لوگوں کے اخلاق و کردار کے بے شمار واقعات دیکھے اور پڑھے مگر قربان جاؤں اپنے آقا کملی والے پر کہ صرف اس ایک واقعہ میں محاسنِ کردار، اعلٰی اخلاقی اقدار اور کسی یتیم و بیکس کے نازک جذبات کی پاسبانی کی وہ رمق اور ہمدردی کی لہر ہے کہ کسی اور کے کردار میں اسطرح کی بات ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ جب بی بی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو اْنہوں نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سراپا قرآن تھے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن میں جہاں اپنی توحید پر، عبادت و معاملات پر، آخرت پر، جزا و سزا کے تصوّر پر اور بے شمار دیگر اہم امور پر سیر حاصل بحث کی ہے، وہیں اپنے محبوب نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق، محاسن، اْنکی سیرت، اْنکی عادات مبارکہ، اْنکے رہن سہن غرضیکہ اْنکے تمام اوصاف کو جگہ جگہ نمایاں کیا ہے۔ قرآن پاک کو پڑھتے ہوئے اکثر جگہوں پر یہ گمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا پسند ہے۔ اور قرآن سے تعریف و توصیف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بڑی آن و شان سے جھلک رہی ہے۔ اللہ تعالٰی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کمالات و محاسن اور اعلٰی اخلاق و کردار کے جس منصبِ جلیلہ پر فائز فرمایا اْس پر غور و فکر اور تدبّر کے لیے بڑی عمیق نگاہی، عالی ظرفی، کمال کی بْردباری، وسعتِ ظرف اور بڑی فراست و نفاست درکار ہے۔ زندگی کو اجیرن کر دینے والی، روزانہ رستے میں کانٹے بچھانے والی اور کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کی تیمارداری بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ طائف کے بازاروں میں خون آلود جسم اور ایک کربناک حالت میں بھی بد دعا سے گریز کیا جاتا ہے کہ شاید انکی نسلوں میں لوگ مسلمان ہو جائیں۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے مگر اللہ کے ایک انتہائی برگزیدہ رسول ہونے کے باوجود ذرا سی زبان کی جنبش سے اْن ظالموں اور نا ہنجاروں کی بستی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی تھی مگر اخلاق و کردار اور عفو و درگزر کا یہ پیکرِ عظیم صلی اللہ علیہ وسلم بددعا سے بچتے ہوئے دعا اور خیر خواہی کا راستہ چنتا ہے۔ میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی راست بازی، ایثار و قربانی، جود و سخا، عفو و درگزر اور انسانی ہمدردی کا وہ عظیم پیکر اور نمونہ ہے کہ انسانیت اس مجسّم اخلاق پر تا ابد نازاں رہے گی۔ میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حْسن کی دلآویزی ،اس پر تقدس ختم نبوت کی ہیبت اور پھر یہ حسین و دلکش پیکر رعنا اور اس پر طہارت کی خلعتِ فاخرہ، جلال و جمال کا یہ حسین امتزاج، یہ رعنائی و زیبائی اور دلکشی و دلربائی چشم انسانیت نے کب دیکھی ہو گی۔ انسانوں کو راہِ راست پر لانے، اْنکو دوزخ کی آگ سے بچانے، اْنکے معاملات درست ڈگر پر چلانے کے لیے جتنی قربانیاں، جتنی تکلیفیں، جتنی اذیتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برداشت کیں اس جیسی کوئی بھی مثال انسانی تاریخ سے ڈھونڈنا مشکل ہے۔ انسان کے لیے سب سے مشکل کام اپنا گھر بار چھوڑنا ہوتا ہے۔ وہ بھی ایسے حالات میں کہ بغیر کسی قصور اور غلطی کے دیارِ مکّہ چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ مگر صبر و رضا کے اسپیکر نے یہ مرحلہ بھی بڑی بردباری، تحمّل اور حوصلہ سے سر کیا۔ زبان کبھی بھی شکوہ سنج نہ بنی۔ اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے مکّہ کی وادی کو الوداع کہا۔ اور پھر جب تقریباً دس سال بعد ایک فاتح کی حیثیت سے اْسی شہرِ مکّہ میں داخل ہوتے ہیں تو فلک عجب منظر دیکھتا ہے۔ وہ سارے مخالفین بلکہ جانی دشمن خوف و دہشت اور درماندگی کی تصویر بنے اپنے ہولناک انجام کو چشمِ تصوّر سے دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں۔ مگر شاید وہ نہیں جانتے کہ اْنکا واسطہ کس مجسّم اخلاق سے پڑا ہے۔ وہ محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں ہر طرح کی ذہنی، جسمانی، روحانی اذیتیں دی گئیں۔ جن کی سرعام توہین ہوتی رہی۔ جنہیں حالت عبادت میں بھی نہ بخشا گیا۔ جن کے عزیز و اقارب پر ظلم کا بازار گرم رکھا گیا۔ جن کے پیروکاروں پر،جو زیادہ تر نچلے اور پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھتے تھے، ایسے ایسے مظالم توڑے گئے کہ اْنکا تذکرہ کرتے بھی ہاتھ کانپ جاتے ہیں۔ آج وہ سارے بالکل بے بس، بے یارومددگار کھڑے ہیں۔ آج وہ سارے غرور، تفاخر اور چالاکیاں اور عیاریاں بے بس نظر آ رہی ہیں اور پھر وہ مجسّم رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم اْن تمام جانی دشمنوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ دْنیا انگشت بدنداں ہے۔ عقل و خرد نے یہ بات پہلے نہ سْنی نہ دیکھی۔ ان لوگوں میں وہ وحشی بھی شامل ہے جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا جگر کاٹا اور چبایا اور بے دردی سے شہید کیا۔ ان سب میں وہ عورت ہندہ بھی شامل ہے جس کے اشارہ پر یہ سب کچھ ہوا۔ مگر ادھر آج صرف معافی ہی معافی ہے۔ عفو و درگزر ہے۔ احسان اور مروّت ہے کہ یہی انسانیت کی معراج ہے کہ صبر کرنا، درگزر کرنا اور معاف کرنا خیر کے بیمثل انمول خزانوں میں سے ہیں۔