اسلام آباد(غلام نبی یوسف زئی)عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ قانون وقواعد کے خلاف ریاستی عہدیداروں کے اقدامات پر عدلیہ کو عدالتی جائزے کا اختیار حاصل ہے ۔ ریلوے گالف کلب سے متعلق مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے عدالت کے اختیار سماعت پر اٹھائے گئے سوالات مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ سرکاری معاہدوں کے معاملات میں عدالتی جائزے کا اختیار پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں ، ریاستی املاک اور وسائل کا منصفانہ،شفاف اور دانشمندانہ استعمال تمام سرکاری عہدیداروں کی قانونی ذمہ داری ہے ، ان کا فرض ہے کہ وہ اپنا اختیار نیک نیتی کے ساتھ بلا امتیاز،ریاست کے مفاد کیلئے استعمال کریں لیکن جہاں اختیار کا استعمال بدنیتی پر مبنی،آمرانہ ،غیرمنصفانہ،غیر دانشمندانہ اور ذاتی پسند کیلئے ہوگا تو پھر اس کا عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ 3رکنی بینچ کا فیصلہ جسے جسٹس اعجا زالاحسن نے تحریر کیا، میں ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا گیا کہ سرکاری معاہدوں اور وسائل کے معاملات میں شفافیت لازمی ہے ، جہاں غیر ضروری اخراجات ہوں گے اور وسائل کے استعمال میں سرکاری عہدیداراثر انداز ہوں گے تو پھر اس پر عدالتی جائزے کا اختیارلاگو ہے ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ریلوے گالف کلب کے معاہدے کے شرائط و ضوابط اور آمدن کی تقسیم کا فارمولہ ایک بولی دہندہ کیلئے تبدیل کیا گیا،کامیاب بولی دہندہ کے ساتھ معاہدے کے شرائط اشتہار میں دی گئی شرائط سے مختلف ہے ،بولی میں حصہ لینے والے تمام بولی دہندگان کو مکمل معلومات نہیں دی گئیں ، منصوبے کے بارے میںپہلا اشتہار مبہم تھا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ذمہ دار اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر مارکیٹنگ نے کس اختیار کے تحت وہ شرائط تبدیل کیںجو اشتہار میں دی گئیںتھیں۔