آج سے چند سال قبل جب مجھ پر امریکہ اور یورپ کے دروازے بند نہیں ہوئے تھے تو بیرونِ ملک رہائش پذیرپاکستانی چہرے تفکّر اور پریشا نی لئے اکثریہ سوال کرتے کہ پاکستان کا کیا حال ہے؟ ہم یہاں دور بیٹھے روز بری بری خبریں سنتے ہیں، یہاں کے اخبارات اور میڈیا تو ایسے بتاتا ہے جیسے وہاں جنگل کا قانون نافذ ہے، امن و سکون نام کو نہیں، ایک افراتفری ہے، ہر کوئی اپنی جان بچا کر بھاگتا چھپتا پھر رہا ہے۔ایسے ملک میں آپ کیسے زندگی گذارتے ہیں۔ میں ہنس کر ٹال دیتا کہ وہاں بحث کا کیا فائدہ ، لیکن جب معاملہ حد سے بڑھ جاتا اور پاکستان کے بارے میں یار لوگ زیادہ ہی منفی گفتگو کرنے لگتے اور سمجھتے کہ جیسے وہ دیارِ غیر میں ایک جنت میں رہتے ہیں اور پاکستان ایک جہنم ہے ،تو میں ان سے کہتا کہ آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں روزانہ بائیس کروڑ لوگ صبح اٹھتے ہیں، تیار ہوتے ہیں، ناشتہ کرتے ہیں، اپنے اپنے کاموں پر نکل جاتے ہیں، ٹریفک چل رہی ہوتی ہے، سکول، کالج، یونیورسٹیاں، سرکاری دفاتر، ہسپتال، بازار وغیرہ سب کھلے ہوتے ہیں، لوگ نوکریاں کرتے ہیں، خریداریاں کرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، کسان کھیتوں میں کام کرتے ہیں،تورخم سے لے کر گوادر تک اور کراچی سے لے کر خنجراب تک بسیں چل رہی ہوتی ہیں، ٹرک سامان لے کر ادھر ادھر جارہے ہوتے ہیں اور سب سے حیران کن بات یہ کہ رات ہوتے ہی یہ بائیس کروڑ اپنے گھروں کو واپس صحیح سلامت بھی لوٹتے ہیں، رات کی نیند پوری کرتے ہیں اور صبح بائیس کروڑ لوگ پھر زندہ بخیریت اٹھ بھی جاتے ہیں۔ ہے نایہ حیرانی کی بات۔ ہم جیسے تیسے اور جس حال میں بھی ہیں، ایک مکمل معاشرے کی طرح کامیاب زندگی گذار رہے ہیں۔ جتنے لوگ کسی دوسرے ملک میں بیماری یا حادثے میں مرتے ہیں، ہمارے ہاں بھی ان کی تعداد کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ حکومتی اہلکاروں سے جو شکایات ہوتی ہیں، ٹریفک کے جو مسائل ہوتے ہیں، کاروباری کساد بازاری، ملاوٹ یا دیگرمعاشرتی معاملات، سب بھی بہت حد تک کامیاب کہلانے والے ممالک جیسے ہی ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ ان ملکوں کو بلاوجہ ناکام کہنے والے، بدنام کرنے والے اور ان کے خلاف منظم پراپیگنڈہ کرنے والے دنیا میں بہت کم ہیں اور میرے ملک کا المیہ تو دگنا ہے کہ اس کے خلاف ایک تو منفی اور جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے والے بہت ہیں اوردوسرا اس کی تصدیق کرنے والے وہ بیرونِ ملک پاکستانی ہوتے ہیں، جن کی اکثریت لہلہاتے ہوئے کھیت کھلیان چھوڑ کر، عزت کی دو وقت کی مناسب روٹی چھوڑ کر، لاکھوںروپے قرض لے کر، جھوٹے حلف نامے بنوا کر،اپنے ملک میں اذیت ناک زندگی کا جھوٹ بول کر، فراڈ طریقوں اور دھوکہ دہی سے بے شمار ملکوں کے بارڈر ز غیر قانونی طور پر عبور کر کے یہاں آئی ہوتی ہے۔ وہ اپنی یورپ میں بسر ہونے والی دوسرے درجے کی زندگی کی اذیتوں کو بر سرِ عام تسلیم نہیں کرنا چاہتے، اس لئے وہ ہر اس مغربی پراپیگنڈے کی ہاں میں ہاں ملا کر یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک واقعی ناکام ریاست ہے اور ان کا اپنے ملک کو چھوڑ کر یہاں آنا ایک صحیح فیصلہ تھا۔ یہ پاکستان جس کی روز مزرہ زندگی دنیا کے ہر کامیاب ملک کی طرح معمول کے مطابق چلتی ہے، جس طرح سورج نکل کر غروب ہوتا ہے اور چاند طلوع ہو کر ڈوبتا ہے ویسے ہی اس ملک کے کاروبارِ زندگی کی صبح و شام ہوتی ہے۔ اس سارے نظام کو ایک منظم انداز میں چلانے کے ذمہ دار وہ اٹھائیس لاکھ سرکاری ملازمین ہیں جو صبح طلوع آفتاب کے وقت اپنی ذمہ داریاں خود بخودسنبھال لیتے ہیں اور اگلے دن طلوع آفتاب تک ان کو سنبھالے رہتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے پورے ملک میں ٹرینیں لاکھوں مسافروں کو ادھر سے ادھر لے کر جاتی ہیں، جہاز اڑتے ہیں، ائیر پورٹوں پر سیکورٹی ، کسٹمز اور ایمیگریشن کے فرائض ادا ہوتے ہیں، ہسپتالوں میں ڈاکٹر، نرس، کمپوڈر موجود ہوتے ہیں۔ سکول کھلتے ہیں، استاد آتے ہیں، بچے صبح اسمبلی میں اکٹھے ہوتے ہیں، تعلیم دی جاتی ہے، سڑکوں پر کڑکڑاتی دھوپ اور بدن چیرنے والی سردی میں سارجنٹ ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں۔عام لوگ روزانہ زمینیں خریدتے اور پٹوار خانوںمیں انتقال کرواتے ہیں۔ یہ سرکاری ملازمین روزانہ اربوں روپے ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں، جن سے سڑکیں بنتی اور مرمت ہوتی ہیں، راتوں کو سٹریٹ لائٹس جلتی ہیں، نلوں میں پانی آتا ہے، سڑکیں صاف ہوتی ہیں، کوڑا اٹھایا جاتا ہے، ڈاکخانے میں خط جاتے ہیں، بجلی کی مسلسل سپلائی بحال رہتی ہے، گیس کے کنویں سے لے کر ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک تک لوگوں کو گیس فراہم ہوتی ہے۔ غرض ایک چھوٹے سے محلے سے لے کر اقتدار کی راہداریوں تک آپ کو ہر جگہ ایک عام سرکاری اہلکار ملے گا۔ ایک گریڈ کا چھوٹے سے چھوٹا ورکر اور بائیس گریڈ کا اعلیٰ ترین آفیسر۔ یہ سب کے سب ایک شاندار تانے بانے سے جڑے ہوئے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر منظم قسم کی حرکت سے اس ملک کی گھڑی کو مسلسل چلا رہے ہوتے ہیں۔ بائیس کروڑ عوام کے درمیان اگر یہ 28لاکھ سرکاری ملازمین نہ ہوں تو پورا ڈھانچہ دھڑام سے گر جائے، کسی جگہ اگر ٹریفک جام ہو تو ٹریفک بحال کرنا مشکل ہو جائے، ٹیکس وصول نہ ہوں، پانی، بجلی،گیس کی سپلائی رک جائے، سڑکیں غلاظت سے بھرجائیں، دفاتر مٹی سے اٹے نظر آئیں۔ جو کوئی جس کی زمین پر چاہے جا بیٹھے اور اسے کوئی بے دخل کرنے والا نہ ہو۔ قتل کے مقدمے درج نہ ہوں اور انصاف کے حصول کے لیئے لوگوں کو کوئی راستہ نظر نہ آئے۔ ان 28لاکھ سرکاری ملازمین میںسے نوے فیصد سے زیادہ تعداد ان ملازمین کی ہے جو گریڈ ایک سے 16تک کے ملازمین ہیں،جن میں چپڑاسی ، مالی، کلرک، استاد، ڈسپنسر اور نرسیں آتی ہیں۔ ان میں گریڈ ایک کے ملازم کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ سترہ ہزار روپے ہے اور گریڈ سولہ کے ملازم کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ پچاس ہزار روپے ہے۔ گریڈ 17کا وہ ملازم جو اعلیٰ یونیورسٹی تعلیم کے بعد ملازمت حاصل کرتا ہے وہ اگر سیکرٹیریٹ میں ہے تو اس کی تنخواہ 69,636روپے ہے، جس میں اصل تنخواہ 30,370روپے، مکان کا کرایہ 4,432روپے، آمد و رفت کے لئے 5,000روپے، علاج معالجے کے کے لئے2,396روپے اور باقی عارضی ریلیف ہے جو کسی بھی وقت واپس لی جا سکتی ہے۔ یہ 69,638روپے بھی سیکرٹریٹ کے ملازمین کے لئے ہے جب کہ باقی عام سترہ گریڈ کے ملازمین کی تنخواہ میں سے 15,185روپے سیکرٹریٹ الاؤنس کم ہو جائے، یعنی ایک اعلیٰ آفیسر، ڈاکٹر، انجینئر کی ابتدائی تنخواہ 54,453روپے ہوگی۔ ان تنخواہوں کا پاکستان کے کسی بھی کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین سے موازنہ کر لیں آپ کو ایسے لگے گا کہ وہ ملازم یورپ کے ممالک کے رہنے والے ہیں اورسرکاری ملازم کسی قحط زدہ افریقی ملک کے شہری ہیں۔ میں نے تیس سال سول سروس میں اعلیٰ ترین گروپ کی نوکری کی ہے، لیکن ان تیس سالوں میں اپنا گھر اور گاڑی نہیں بنا سکا تھا، اولاد کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانا تو ایک خواب تھا۔ لیکن نوکری کے ساتھ ساتھ 18سال کی ’’کالم نگاری‘‘ اور ریٹائرمنٹ کے بعد چھ سال ’’اینکر بازی‘‘ نے مجھے آج اس قابل بنا دیا ہے کہ میرے پاس ایک کنال کا گھر اور دو ذاتی گاڑیاں ہیں۔ سرکاری ملازمت کے دوران میری والدہ، والد ، بیوی اور بچے بیمار ہوتے تو میں کسی سرکاری ہسپتال میں سیکرٹری ہیلتھ کی سفارش سے بہتر علاج کرواتا یا پرائیویٹ ہسپتال میں ذاتی جیب سے خرچ کرتا۔ لیکن میڈیا کی ملازمت کے دوران میری بیٹی کا ایک آپریشن تھا جہاںمجھے صرف ہیلتھ انشورنس کارڈ دکھاناپڑا اور میں نے صرف کھانے کا خرچہ اٹھایا۔ یہ سرکاری ملازمین اس ملک میں ریڑھ کی ہڈی ہیں، یہ وہ سٹیل فریم ہیں جس پر معاشرے کی عمارت کھڑی ہے۔ یہ گر گئے تو ملک دھڑام سے گر جائے گا۔ تمام کے تمام سیاست دان بھی اگر ملک چھوڑ کر چلے جائیں اور کبھی بھی واپس نہ آئیں تو پھر بھی یہ ملک چلتا رہے گا۔ لیکن اگر اس ملک کا سرکاری ملازم مطمئن نہ ہوا، معاشی مشکلات سے آزاد نہ ہوا تو یہ ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی یہاں امن و خوشحالی آسکتی ہے۔