ایک قدیم چینی مصنف لِن یوتانگ نے ’’جینے کی اہمیت‘‘ کے نام سے ایک نہایت خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی کتاب لکھی ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحے کی کتاب کے ہر صفحے پر جابجا دلکش تحریریں اور دل میں نقش ہو جانے والی قلمی تصویریں ہیں۔ چاہیں تو آپ ان بکھرے ہوئے موتیوں سے اپنی زندگی کو حسین بنالیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے آئیڈیاز کو اختیار کر کے گزرتے دنوں کو شاد آباد کرلیں۔ لِن یوتانگ نے اسی کتاب میں ایک مثالی شہر کا نقشہ بھی کھینچا ہے۔ ان کا مثالی شہر ایسا ہے جس کے باسیوں کی تعداد بہت زیادہ نہ ہو اور لوگ بالعموم ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہوں۔ اس مثالی شہر کے خوش ذوق باسی صبح گھر سے نکلیں تو انہیں نیلے شفاف آسمان پر اڑتی ہوئی سفید کونجیں نظر آ جائیں تو وہ چند لمحوں کو آرام اطمینان کے ساتھ اس حسین نظارے سے لطف اندوز ہوں گے پھر آگے بڑھ کر چوک میں اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے محدود سی ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے سارجنٹ سے ہاتھ ملاتے اور دعا سلام کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ غرضیکہ اسی طرح کی کئی اور باتیں انہوں نے اس شہر بے مثال کے بارے میں لکھی ہیں۔ کسی زمانے میں میرا شہر سرگودھا اس مثالی شہر کے نقشے پر پورا اترتا تھا اور لوگ بغیر کسی خود غرضی اور لالچ کے ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شرکت کرتے تھے۔ شہر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک بائیسکل پر ہم پندرہ بیس منٹ میں پہنچ جاتے۔ بلامبالغہ ان دنوں فوج کے کپتان اور میجر، بینک منیجر، کالج کے پروفیسر اور ڈاکٹرز تک سبھی سائیکلوں پر خوشی خوشی آتے جاتے تھے۔ ہم طالب علموں کے لیے تو سائیکل کسی اڑن کھٹولے سے کم نہ تھی۔ میرے نزدیک زندگی کا سب سے بڑا نشاط یہ تھا کہ میں سردیوں کے دنوں میں اپنے گھر کے پچھواڑے میں بہنے والی نہر کے اوپر لکڑی کا پل سائیکل پر پار کرتا اور سامنے تاحد نظر پھیلی ہوئی فضائے سبز گوں کی مٹیالی پگڈنڈیوں پر سائیکل دوڑاتے ہوئے کسی مناسب جگہ پر ڈیرہ جما لیتا اور شفیق الرحمن کی کتابیں پڑھتا۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیلز پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہو گئے۔ مبالغہ آرائی میں پی ٹی آئی بھی پیچھے نہ تھی مگر افواہ سازی میں کوئی پارٹی مسلم لیگ ن کا مقابلہ نہ کر سکی۔ پہلے ملکی سروے رپورٹوں کا خوب خوب چرچا کیا گیا۔ کبھی گیلپ پاکستان کی رپورٹوں کی نمک مرچ لگا کر تشہیر کی گئی پھر پلڈاٹ کی رپورٹوں کی باری آ گئی۔ ان کے بعد لندن کے اکانومسٹ اور کئی بیرونی اخبارات کے تذکرے کئے گئے مگر جب سے ڈیلی میل نے ایون فیلڈ کی تفصیلات اور شریف فیملی کی لندن میں دیگر 21 جائیدادوں کا ذکر کیا تب سے بیرونی اخبارات و جرائد کے تذکروں سے قدرے افاقہ ہے۔ اس کے علاوہ میاں صاحب کے حوالے سے خبریں چلائی گئیں کہ انہیں طرح طرح کی آفرز کی گئیں۔ ن لیگی میڈیا سیل کی سروے رپورٹوں کے مطابق مسلم لیگ ن کو بھاری تعداد میں سیٹیں جیتتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان کی قومی اسمبلی میں کم از کم ایک سو اورزیادہ سے زیادہ 150 سیٹیں آئیں گی۔ اپنے آپ کو غیر جانبدار آبزرور قرار دینے والوں نے پی ٹی آئی کو 80 سے 150 تک سیٹیں دی ہیں۔ ان متفرق و متضاد رپورٹوں سے جب کنفیوژن بڑھا تو میں نے اس کا یہ حل نکالا کہ حصہ زمیں برسرزمیں۔ میں کئی دہائیوں کی جہاں گردی اور محنت مزدوری کے بعد وطن لوٹا تو ہمارا مرکزی ٹھکانا تو لاہور منتقل ہو چکا تھا۔ مگر ابھی تک سرگودھا ہی ہمارا گھر اور ہمارا شہر کہلاتا ہے۔ میری واپسی ایک انجمن کی واپسی بن گئی کیونکہ مادر علمی گورنمنٹ کالج سرگودھا نے یونیورسٹی آف سرگودھا کی حیثیت سے میرے لیے اپنے بازو وا کردیئے اور میں یہاں سیاسیات کا پروفیسر مقرر ہو گیا۔ اب یہ میرے زمانہ طالب علمی والا لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی آبادی والا شہر نہ تھا اب سرگودھا سات آٹھ لاکھ کی آبادی والا پاکستان کا بارہواں بڑا شہر ہے جو بہت پھیل چکا ہے مگر شہر کا سوشل فیبرک یعنی سماجی و معاشرتی رنگ ڈھنگ وہی پرانا اور لوگوں کا میل ملاپ بھی بڑی حد تک پہلے والا ہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے پہچانتے اور خاندانوں کی سیاسی و معاشرتی تاریخ سے خوب آ گہی رکھتے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے میں سرگودھا، بھیرہ آتے جاتے سارے علاقے کا خاموش عوامی سروے کرتا رہا ہوں۔ سوچا یہ تھا کہ عین الیکشن سے پہلے پھر سیاست و صحافت کے ستونوں سے تازہ ترین انتخابی صورت حال کے بارے میں ثقہ معلومات یکجا کر کے اپنے قارئین کو تصوراتی و خیالاتی نہیں حقیقی اور سچی رپورٹ دوں گا۔ یہ سمجھئے کہ یہ 20 جولائی تک کی انتخابی تصویر ہے۔ این اے 88 سرگودھا سے پی ٹی آئی کے ندیم افضل چن کی کامیابی کے غالب امکانات ہیں۔ ان کے مقابلے میں ڈاکٹر مختار بھرت مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ بار ڈاکٹر صاحب پنجاب اسمبلی کے رکن تھے۔ ن لیگ کی طرف سے 2013ء کے انتخاب میں یہاں سے پیر امین الحسنات رکن قومی اسمبلی تھے اور مسلم لیگ ن کی حکومت میں وزیر مملکت برائے مذہبی امور بھی تھے۔ اگرچہ پیر امین الحسنات علاقے کی بھاری بھرکم شخصیت ہیں۔ وہ پیر کرم شاہ الازہری مرحوم کے صاحبزادے ہیں مگر وہ علاقے کی مقامی سیاست سے عملاً لاتعلق رہے اور یہاں ان کے بھائی فاروق بہاء الحق مالک و مختار تھے جن کی شہرت اپنے بزرگوں سے بہت مختلف تھی۔ غالباً اسی لیے پیر صاحبان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ این اے 89 کوٹ مومن سرگودھا کے علاقے سے تحریک انصاف کے امیدوار اسامہ غیاث میلہ کی کامیابی یقینی سمجھی جا رہی ہے ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے بیرسٹر محسن رانجھا ہیں جو میاں نوازشریف کے مقربین کی صف اول میں شمار ہوتے ہیں اس بار وہ ایک زوردار مقابلہ تو کریں گے مگر ووٹوں کی اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ این اے 90 سرگودھا شہر میں پی ٹی آئی کی ڈاکٹر نادیہ عزیز کی کامیابی کا ہر طرف چرچا ہے۔ اگرچہ یہاں دلچسپ مقابلہ ہوگا۔ ان کے مدمقابل ن لیگ کی طرف سے سابق ایم این اے حامد حمید اور 2008ء میں پیپلزپارٹی کی طرف سے اسی سیٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے تسنیم قریشی اور ایم ایم اے کی طرف سے 2002ء کے انتخابات میں تقریباً 40ہزار ووٹ لینے والے ڈاکٹر ارشد شاہد بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خدمت خلق کے خوگر اور دیانت و امانت کا مجسمہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ اس بار بھی وہ بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں مگر اس مہم میں 2002ء والا ولولہ اور طنطنہ نہیں۔ این اے 91 بھاگٹانوالہ، سرگودھا کی سیٹ پر اگرچہ عامر سلطان چیمہ اور مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر ذوالفقار بھٹی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے مگر واضح طور پر ہوا پی ٹی آئی کے امیدوار عامر سلطان چیمہ کے حق میں ہے اور یہاں سے ان کی کامیابی کا قوی امکان ہے۔ عامر سلطان چیمہ کے والد سلطان چیمہ مرحوم پاکستان کے ان ممتاز اور خوش قسمت سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے جنہیں ہمیشہ کامیابی نصیب ہوئی۔ سوائے ایک بار۔ وہ مسلسل سات میں سے چھ انتخابات جیتے۔ سوائے 2013ء کے انتخاب کے۔ جب وہ ق لیگ اور مدمقابل ڈاکٹر بھٹی ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ جناب سلطان چیمہ مرحوم علاقے میں عوامی خدمت کے اعتبار سے اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ وہ سڑکیں، سکول، کالج اور ہیلتھ یونٹ وغیرہ کے لیے سرگرم عمل رہتے۔ حلقہ این اے 92 سے آزاد امیدوار ظفر قریشی اور پی ٹی آئی کے نعیم سیالوی کے درمیان زور دار مقابلے کی توقع ہے۔ ظفر قریشی پی ٹی آئی کے ٹکٹ یافتہ امیدوار تھے مگر بعد میں ٹکٹ ان سے واپس لے کرنعیم سیالوی کو دے دیا گیا تاکہ علاقے میں سیالوی خاندان کی روحانی گدی کے اثرات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ مسلم لیگ ن نے 2013ء میں اور اب 2018ء میں پی ٹی آئی نے حلقہ این اے 90 پر ہمارے دوست ممتاز کاہلوں کے ساتھ بے وفائی کی۔ مگر کاہلوں صاحب کے گھر عمران خان گئے اور انہوں نے معذرت کی اور مستقبل کے حوالے سے کچھ وعدے وعید کئے۔ اب کاہلوں صاحب نادیہ عزیز کی حمایت کر رہے ہیں۔ بہرحال ضلع سرگودھا کی ایم این اے کی 5 میں سے 4 سیٹیں پی ٹی آئی کی یقینی ہیں۔ پی پی 72 بھیرہ سے حسین انعام پراچہ کی کامیابی یقینی بتائی جا رہی ہے۔ پی پی 73 پر بھی زوردار مقابلہ متوقع ہے۔ یہاں امیر جماعت اسلامی سرگودھا (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) کے ڈاکٹر مبشر کے بھائی میر گجر ایک مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ وہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ظفر عباسی لک سابق آئی جی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جبکہ خالق داد بھڑیال مسلم لیگ ن اور مہر دستگیر لک سابق ایم پی اے جیپ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جہاں تک سرگودھا ڈویژن کے ضلع خوشاب کا تعلق ہے تو وہ بھی پی ٹی آئی کے عمر اسلم این اے 93 سے جیتتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی طرف سے سمیرا ملک انتخاب لڑ رہی ہیں مگر اس بار ان کی پوزیشن کمزور ہے جبکہ این اے 94 خوشاب سے مسلم لیگ ن کے امیدوار شاکر بشیر کو مضبوط امیدوار گردانا جارہا ہے۔ تیسرے ضلع میانوالی سے عمران خان اور امجد خان کی کامیابی کے روشن تر امکانات بتائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ضلع بھکر سے بھی پی ٹی آئی ہی جیتتی دکھائی دے رہی ہے۔ سرگودھا کے بندے بندے کو ہم جانتے ہیں مگر ہمیں خلائی یا بالائی مخلوق دیکھنے کو نہیں ملی وہی جانے پہچانے لوگ ہیں جو انتخابی کامیابی کا اندازہ لگا کراپنے سیاسی آشیانے اور ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ق سے ن اور کبھی ن سے جنون۔ یہ ایک معمول کی بات ہے۔ اس بار مسلم لیگ ن واویلا اس لیے کر رہی ہے کہ اسے پہلی بار اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور پولیس وغیرہ کی وہ سپورٹ حاصل نہیں جس کے وہ عادی تھے۔ ن لیگ کو اصل پریشانی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی الیکٹ ایبلز والی کاریگری کا نہ صرف علم ہو چکا ہے بلکہ وہ اس پر بڑے بھرپور انداز سے کاربند ہو چکی ہے۔ میرے شہر سرگودھا بلکہ ساری سرگودھا ڈویژن سے نتیجہ پی ٹی آئی کے حق میں نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔