بہت سی خبروں میں یہ خبر دب کر رہ گئی ہے کہ اسرائیل میں آباد عرب یہودی اور عیسائیوں کی ان اسرائیلیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں جو روس‘ آسٹریا ‘ جرمنی اور دوسرے ملکوں سے لا کر بسائے گئے۔ اسرائیل اس لڑائی کو عرب اسرائیل تنازع کی اصطلاح میں پیش کر رہا ہے جو یقینا گمراہ کن ہے۔ اس سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسرائیلیوں کو مصر‘ شام‘ اردن اور دیگر عرب ممالک کی مخالفت کا سامنا ہے‘ اس سے یہ بیانیہ تراشا جا رہا ہے کہ فلسطینی باشندے خطے کے حقیقی باسی نہیں اس لئے ان کے حق ملکیت کو اہمیت نہ دی جائے۔ تاریخی طو پر 1967ء تک غزہ اور مغربی کنارے کا علاقہ مصر و اردن کے کنٹرول میں تھا۔ اس وقت تک اسرائیل عرب نامی کوئی تنازع موجود نہ تھا۔ حالیہ جھگڑا بیت المقدس کے قدیم علاقے شیخ جراح میں رہائش پذیر فلسطینیوں کی بیدخلی سے شروع ہوا۔ اس علاقے میں ایک لاکھ فلسطینی اور چھ ہزار یہودی صدیوں سے آباد ہیں۔ دونوں مذاہب کے یہ مقامی لوگ ایک دوسرے کی ہمسائیگی کا احترام کرتے ہیں۔1970ء تک یہ ہم آہنگی اور باہمی احترام ہر معاملے میں دکھائی دیتا رہا۔ 1970ء میں اسرائیل نے نئے قوانین نافذ کر دیے۔ ان قوانین کے ذریعے اسرائیلی یہودیوں کو مشترکہ طور پر یہ حق دیا گیا کہ وہ یہ دعویٰ کر کے کسی بھی فلسطینی کی جائیداد پر قبضہ کر سکتے ہیں کہ یہ جائیداد 1948ء سے قبل یہودیوں کی ملکیت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 1948ء کی جنگ میں دو ہزار یہودیوں کو بیت المقدس سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ اس دوران بیس ہزار فلسطینی بھی بیت المقدس شہر اور ہزاروں فلسطینی خاندان دوسرے علاقوں سے بیدخل کئے گئے۔ انسانی حقوق اور آزادیوں کے لئے ہر وقت درد مندی کا اظہار کرنے والی مغربی دنیا کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں کہ اپنی آبائی جائیداد چھن جانے پر فلسطینیوں کے پاس ایسا کوئی قانونی طریقہ کار نہیں جو ان کے دعویٰ کی بنیاد پر جائیداد واپس دلا سکے۔1950ء کے ایب سینٹی(Absentee)قانون کے تحت فلسطینیوں کو اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس دوران نقل مکانی کرنے والے یہودی آباد کاروں کو مغربی بیت المقدس میں متبادل جائیدادیں الاٹ کر دی گئیں۔ فلسطینیوں کو بیت المقدس سے بیدخل کرنے کے لئے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان میں دھمکانا اور جارحانہ طرز عمل بھی شامل ہے‘ بھتہ خوری‘ جعلسازی اور خریدار کی شناخت چھپانا بھی اس حکمت عملی میں شامل ہوتا ہے۔ اس کام کے لئے یہودیوں کے تین مختلف گروپ سرگرم ہیں۔ ان گروپوں کو زیادہ تر دولت مند امریکیوں کی مالی مدد اور تعاون حاصل ہوتا ہے۔ یہ وہ کنکشن ہے جو امریکی مفاد کو ظاہر کرتا ہے بہت سے امریکی اس کام کے لئے چندہ فراہم کرتے ہیںایتریت کو ہانیم‘ ایلاد اور نہالات جیسے قبضہ گروپ یہ سارا بندوبست کرتے ہیں۔ انتظامی جبر اور امتیازی قوانین کی موجودگی میں جب کسی فلسطینی کے گھر اور زمین پر اسرائیلی قبضہ کر لیں تو وہ کسی عدالت سے رجوع کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ کوئی قانون اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مالک فلسطینی خاندان اپنے ہی گھر کا کرایہ ان یہودی گروپوں کو ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس تنازع میں یہودیوں کو موقع پر مسلح مدد فراہم کرنے کے لئے اسرائیلی سکیورٹی فورس موجود رہتی ہے۔فلسطینی بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ اسرائیل دھونس دھاندلی سے ان کی املاک ہتھیا رہا ہے۔ یوں اس جھگڑے کی ایک شکل فلسطینیوں اور اسرائیلی فوجیوں میں تصادم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ محلہ شیخ جراح قدیم بیت المقدس میں واقع ہے۔ اسرائیلی آباد کاروں نے اسے اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ اسرائیلی قبضہ گروپوں نے علاقے پر اپنا دعویٰ سچ ثابت کرنے کے لئے سلطنت عثمانیہ اور اردن کے مابین ایک پرانے معاہدے کا ثبوت پیش کیا ہے‘ اس معاہدے میں بتایا گیا ہے کہ محلہ شیخ جراح والی اراضی 1736ء میں ایک یہودی خاندان حجازی سعدی کی ملکیت تھی۔ فلسطینی وکلاء اس معاہدے کو جعلی قرار دیتے ہیں۔نہ ہی ترکی میں اس معاہدے کی کوئی کاپی پائی گئی ہے ۔ یہاں 1950ء میں کچھ فلسطینی مہاجرین کے لئے گھر بنائے گئے جس کے لئے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین اور اردن کے مابین معاہدہ ہوا۔ 1968ء کی پارلیمانی قرار داد کے تحت اسرائیل اس معاہدے کا احترام کرنے کا پابند ہے۔ انتہا پسند یہودی مطالبہ کر رہے ہیں کہ فلسطینی 1882ء ‘ 1915ء ‘ 1929ء ‘ 1936ء ‘ 1948ء اور 1967ء کے برسوں میں ان کی املاک پر قابض ہوتے رہے اس لئے اب جبکہ وہ طاقتور ہو چکے ہیں اس لئے اپنی املاک واپس لے رہے ہیں‘ لہٰذا فلسطینیوں کو ان تہتر برسوں کا کرایہ بھی یہودیوں کو ادا کرنا چاہیے۔ اسرائیل کی انتہا پسند نیتن یاہو انتظامیہ کو اپنی سیاست زندہ رکھنے کے لئے یہ دائو کھیلنا ضروری ہے کہ بیت المقدس سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر نکال دیا جائے‘ چاہے اس عمل کے دوران کتنے ہی بچے بارود اور آگ میں جل کر کوئلہ ہو جائیں۔ اس ساری صورتحال میں ایک بات ابھر کے سامنے آئی ہے کہ ہمیں جن اقدار کا درس مہذب ہونے کی علامت بنا کر دیا جاتا ہے ان کا مغربی دنیا میں کوئی نفوذ نہیں ۔فرانس نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے ،وہی فرانس جو آزادی اظہار کے تحفظ کے لئے مرا جا رہا تھا،امریکہ اسرائیل کا دفاع کرنے کے لیے کمر باندھ چکا ہے ، امریکی حکومت کا شرمناک موقف آیا کی اسرائیل کو حق دفاع حاصل ہے ، بے رحم امریکیوں سے کوئی پوچھے کہ اگر اسرائیلی فوجی فلسطینی بچوں کی گردنوں پر گھٹنے رکھ کر ان کو شہید کریں تو یہ حق دفاع ہو گا؟ کل کلاں یہی فلسطینی طاقتور ہو گئے اور اسرائیلیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنے لگے تو کیا مغرب کے اصول ، قوانین اور موقف یہی رہے گا ؟کیا وہ طالبان کو یہی حق دے سکتے ہیں؟