تامل صحافی اور مصنف شاستری راما چندرن کا کہنا ہے کہ گوٹا بایا نے سری لنکا میںبالکل اسی طرح کی انتخابی مہم چلا کر اکثریتی بدھ فرقہ کو لام بند کیا، جس طرح بھارت میں مودی نے ہندو اکثریت کو پاکستان اور مسلمانوں کا خیالی خوف دکھا کر اپنے حق میں ہموار کر دیا۔ راجا پکشا بھائیوں نے بھارت اور ہندوئو ں کا خوف دکھا کر ووٹ حاصل کئے۔ بھارت میں تامل ناڈو صوبہ کی آبادی 67.86ملین ہے، جبکہ سری لنکا کی آبادی 21.44ملین ہے۔ راجا پکشا کا کہنا ہے کہ اگر سری لنکا کے تامل علاقوں کو حق خود اختیاری ملتا ہے ، تو وہ تامل ناڈو کے ساتھ مل کر بد ھ سنہالا آبادی کو اقلیت میں تبدیل کردیں گے۔ سابق بھارتی سفارت کار ایم کے بھدر کمار کا کہنا ہے کہ پچھلے چندبر سوں سے بھارت اور سری لنکا کی سیاست میں کئی مماثلتیں ہیں۔ جس طرح بھارت میں ہندو نیشنلزم کا بھوت سر چڑھ کر بول رہا ہے، اسی طرح سری لنکا میں بدھ قوم پرستوں نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیاہوا ہے۔ 2015ء کے انتخابات میں مہند راجا پکشا نے اپنی ہار کیلئے بھارت کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ انتخابات سے قبل سری لنکا نے کولمبو میں بھارتی خفیہ ادارے راء کے اسٹیشن آفیسر کے النگو کو ملک چھوڑنے کا حکم بھی دیا تھا۔ ان انتخابات سے قبل تامل پارٹیوں نے 13مانگوں پر مشتمل ایک چارٹر سیاسی جماعتوں کو پیش کیا تھا۔ جس میں 13ویں ترمیم کا نفاذ، تامل آبادی کیلئے حق خود ارادیت، وفاقی ڈھانچہ کا قیام، جنگ کے دوران ہوئی زیادتیوں پر ایک بین الاقوامی کمیشن کا قیام ، دہشت گردی سے متعلق سخت قوانین کی منسوخی ، نیز شمال اور مشرق میں بدھ آبادی کی بستیاں بسانے کی کوششوںکو روکنا شامل تھا۔ گوٹا بایا نے ان مانگوں کو مسترد کردیا تھا۔ بھدر کمار کا کہنا ہے کہ آئندہ وقت تامل آبادی کیلئے نہایت سخت ہوگا اور ان کو اسکے لئے تیار رہنا ہوگا۔ چونکہ مودی حکومت خود اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کچھ ایساہی رویہ اختیار کررہی ہے، اسلئے وہ شاید ہی ان کی کوئی مدد کر پائے گی۔ 1971ء کی بھارت ۔پاکستان جنگ کے بعد ہی سری لنکا بھارتی خفیہ اداروں اور اسکی حکومت کے نشانہ پر آگیا تھا۔ کانگریس پارٹی کے اہم عہدیدار نے چند برس قبل راقم کو بتایا تھا کہ 1984ء میں اگر وزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقہ جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی۔ ان کے مطابق مسزگاندھی نے سری لنکا کو1971ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔ سر ی لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکہ جانے والے سویلین جہازوں کے لئے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑتے ہوئے تامل ناڈوکو مستقر بنا کر تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لئے تیارکرنا شروع کردیا تھا۔ کانگریسی حکومتیں1971ء کے بعد خطے میں بھارت کو ایک بارعب پاورکے طور پر منوانے کی کوششوں میں مصروف تھیں مگر یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔اس لیے کسی بھی جنوبی ایشیائی ملک کے ساتھ بھارت کے رشتے سدھر نہیں سکے۔ 60 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بنگلہ دیش کے سوا کسی پڑوسی، حتیٰ کہ بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدوں کا حتمی تعین نہیں ہوسکا۔ اسی لیے شاید 1977ء میں جب جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تواس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اشتراک کی تجویز رکھی مگر اس حکومت کا جلد ہی خاتمہ ہوگیا۔ اس پالیسی کا اعادہ 1996ء میں اندر کمارگجرال نے کیا مگر وہ ایک کمزور حکمران تھے۔ ایک سال بعد واجپائی ایٹمی دھماکہ کرکے کشیدگی کو نقطہ انتہا تک لے گئے، چند ماہ بعد ہی انہیں ادراک ہوگیا کہ ایٹم بم اپنی جگہ مگر اشتراک کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اپنے چھ سالہ دورمیں پارلیمنٹ حملہ اور کارگل کے ہوتے ہوئے بھی وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں رہے اور دیگر پڑوسی ممالک کا خوف دور کر کے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ بھارت ایک غیر متوازن پاور نہیں بلکہ ان کی ترقی میں معاون بن سکتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کا بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ اشتراک اور جنوبی ریاست تامل ناڈو کا سری لنکا کے ساتھ اشتراک اسی دور کی پیداوار ہیں اور اسی پالیسی کو من موہن سنگھ نے اپنی کمزوریوں کے باوجود جاری رکھا۔ مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی اب اس گیم کو تبدیل کرکے دوبارہ سابق کانگریسی حکومتوں کی روش پر چل پڑے ہیں، یعنی پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے اور پاکستان کے اردگرد حصار قائم کیا جائے۔ حکمران بی جے پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارکراور پاکستان پر تنقید کرکے وہ زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ (ختم شد)