اتوار21اپریل کوسری لنکاکے دارالحکومت کولمبو میں مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر ہونے والے 8بم دھماکوں میں 35غیرملکیوں کے سمیت بڑی تعداد میں سری لنکن مسیحی مارے گئے تادم تحریر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 310تک پہنچ گئی ہے جبکہ 500افراد زخمی ہیں۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ منگل23اپریل کو ان ہلاکتوں پر ملک میں سرکاری سطح پر سوگ منایا گیا جبکہ ہلاک شدگان کی آخری رسومات کی ادائیگی کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ معصوم جانوں کے ضیاع پر شدیدصدمہ ہے مگراس ناقابل بیان المیے کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ ہم سری لنکن بطور قوم متحد رہیں۔ 3چرچوں اور کولمبو کے 3ہوٹلوں دی شینگریلا، سینامن گرانڈ اور کنگز بری کو بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ کابینہ کے ترجمان نے بم حملوں میں انٹرنیشنل نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے شواہد ملنے کا دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام خود کش بمبار سری لنکا کے شہری ہی تھے۔ تاہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ہلاک شدگان میں غیر ملکی بھی شامل ہیں جن میں سے 5برطانوی، 2امریکی، 6بھارتی، ڈنمارک کے 3اور پرتگال کا ایک شہری شامل ہے۔ ہر طرف سوگ کا سماں ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔تادم تحریرکسی تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور اب تک حملہ آوروں کے عزائم بھی معلوم نہیں ہوسکے۔ حکومت نے صورتحال کو کنٹرول کرنے اور افواہوں کی روک تھام کے لیے عارضی طور پر فیس بک اور واٹس ایپ سمیت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بھی بند کردی ہیں۔کولمبومیںجس منظم اور پیشہ ورانہ مہارت سے دہشت گردی کی کاروائی انجام دی گئی ہے اس سے تو یہی لگ رہاہے کہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے گھنائونے مقاصدشش جہت ہیں۔کیونکہ یہ حملے مسیحیوںکے تہوارکے موقع پرمسیحیوں پرہوئے اورپوراامریکہ اورسارایورپ مسیحی دنیاکہلاتی ہے اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ حملہ آورکسی ایک طبقے کوبدنام کرنے کے لئے امریکہ اوریورپ تک ہلچل پیدا کرناچاہتے تھے۔شائدکوئی مسلمان گروپ ایسی کارروائی نہیں کرسکتا کیوںکہ اسے پتاہے کہ پھرسری لنکاکے مسلمان فناکردیئے جائیں گے ۔واضح رہے کہ2001کی مردم شماری کے مطابق بدھ مت سری لنکا میں سب سے بڑا مذہب ہے جو کل ملکی آبادی کے 70فیصد ہے۔ ہندومت سری لنکا کی آبادی کا 12.6فیصدہے۔ اسلام سری لنکا کا تیسرا بڑا مذہب ہے اور سری لنکا میں مسلمان 9.7فیصدہیںجبکہ 7.4فیصدمسیحی ہیں۔ ماضی قریب میںجزیرہ سری لنکاخانہ جنگی کی آگ میں جھلستارہا ہے ۔ایل ٹی ٹی کے نام پر ملک میں ایک دہشت گردتنظیم بم دھماکے کرتے ہوئے ملک میںآگ اورخون کاکھیل کھیلتی رہی ۔ 23جولائی 1983 ء سے تامل ٹائیگرزکی جانب سے حکومت کے خلاف بغاوت کی تحریک شروع کی گئی۔ اس بغاوت کا مقصد ملک کے شمال مشرقی حصہ میں ایک آزاد تامل ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ خانہ جنگی 26سال جاری رہی اور آخر کار مئی 2009 ء کو سری لنکا فوج نے تامل ٹائیگرز کو شکست دے دی جس کے بعد یہ خانہ جنگی ختم ہو گئی۔25سال سے زائد عرصہ سے جاری جنگ کی وجہ سے ملک کی آبادی، ماحول اور معیشت نے خاصا نقصان اٹھانا پڑا، ابتدائی اندازے کے مطابق اس عرصہ کے دوران 80ہزار سے ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔تنازع کے ابتدا کے دوران، سری لنکا فورسز نے تامل ٹائیگرز کی طرف سے قبضہ کیے گئے علاقوں کو واپس لینے کی کوشش کی۔حکومتی فورسز کے خلاف تامل ٹائیگرز کی کارروائیوں کی وجہ سے 32ریاستوں نے تامل ٹائیگرز کو دہشت گرد کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیاان ریاستوں میں امریکا، بھارت، کینیڈا اور یورپی یونین کے رکن ممالک شامل ہیں۔ ایل ٹی ٹی کے خاتمے کے بعدسری لنکاسیاسی اورمعاشی استحکام کی راہ پرگامزن ہوا۔البتہ افسوس یہ ہے کہ6مار چ 2018ء کو سری لنکن شہر کینڈی کے بعض علاقوں میں بودھ مذہب سے تعلق رکھنے والی اکثریتی سنہالا برادری کی جانب سے مسلم کش حملے ہوئے اورمسلمانوں کی دکانوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات ہوئے جس کے بعدسری لنکا کی کابینہ نے مسلمانوں کے کاروبار اور مساجد پر کئی حملوں کے بعد حالات پر قابو پانے کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ملک کے مشرقی شہر امراپرا میں بھی مسلم مخالف پرتشدد واقعات پیش آئے تھے۔ اس کے علاوہ گال میں مسلمانوں کے ملکیتی کاروباروں اور مساجد پر حملوں کے 20 سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔خیال رہے کہ سری لنکا میں کشیدگی سال 2012ء سے پائی جاتی ہے جس میں بدھ مت گروپوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔اس سخت گیر تنظیم پر اس سے پہلے بھی 2014ء میں مذہبی فسادات بھڑکانے کے الزامات عائد ہو چکے ہیں۔سری لنکا میں پولیس نے مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں ملوث ایک بودھ مذہبی رہنما کو گرفتار کیا ہے۔گرفتار کیے جانے والے 32 سالہ شخص کا تعلق سخت گیر بودھ تنظیم ’’بودو بالا سینا ‘‘سے ہے۔ان پر مسلمانوں کے خلاف حملے اور آتش زنی کرنے جیسے متعدد الزامات ہیں جس سے ملک میں مذہبی منافرت اور کشیدگی میں اضافہ ہوا۔پولیس کے ترجمان پریاناتھا جے کوڈی کا کہنا تھا کہ گزشتہ اپریل سے مسلمانوں کے مکانات، ان کے کاروبار، مساجد اور قبرستانوں میں آگ زنی کے اب تک کے 16 واقعات سے متعلق تفتیش کا عمل جاری ہے۔پولیس کا کہناتھا کہ جس شخص کو حراست میں لیا گیا ہے وہ گنناسارن کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ سارن سخت گیر بودھ مذہبی رہنما ہیں ۔اس دوران بود بالا سینا کے ایک ترجمان نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ایک دو عشرے میں ہی سری لنکا میں بدھ مت کے ماننے والوں کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔اس سخت گیر تنظیم پر اس سے پہلے بھی 2014 ء میں مذہبی فسادات بھڑکانے کے الزامت عائد ہو چکے ہیں، اس دوران چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس پوری تفصیل کے بیان کرنے کامقصدیہ ہے کہ حتمی طورپرکچھ نہیں کہاجاسکتاکہ اپریل کی21کوسری لنکاکے دارالحکومت کولمبوکوکس نے خون میں نہلایا۔