بھارت مقبوضہ کشمیرمیں باربارسوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پرپابندی عائدکرتاہے جس کامقصدیہ ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کارابطہ بیرون دنیاسے مکمل طور پر اور پوری طرح منقطع ہو،تاکہ بیرون کوپتانہ چل سکے کہ قابض بھارتی فوج کشمیریوں کے ساتھ کس قسم کا درندگی کاسلوک کررہی ہے ۔اس طرح سری نگر اندھیر نگری میں تبدیل ہوچکاہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس جدید دورمیں بھی کسی بستی یاکسی قوم کے ساتھ ایسا کیا جا سکتاہے کہ ان کا اپنوں اورپوری دنیاسے رابطہ منقطع کیا جائے اوروہ بھی ایسے میںکہ جب قابض فوج اس قوم کی نسل کشی کررہی ہے ۔ تیسری دنیامیں بسنے والے عوام ہرلحاظ سے تنگ، سرگرداں اور پریشان ہیںان پریشانیوں کا حل یہ نہیں ہے کہ حقائق سے آنکھیں موند لی جائیں۔آنکھیں موند لینے سے حقیقت چھپ نہیں جاتی۔البتہ اس طرز عمل سے انسان کا ضمیر اور احساس ضرور ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان حقائق سے نظریں ملا نے کی کوشش ہونی چاہیے ۔ ان کو دیکھنے سمجھنے اور ان سے مقابلہ کے لیے تیاری ہونی چاہیے۔یہ مقابلہ آرائی میڈیابمقابلہ میڈیا کی بنیاد پرہوناچاہئے ۔ حکمرانوں کی ظالمانہ روش ،فرسودہ اورگھسے پٹے نظام کے بدلے منصفانہ اور عادلانہ آفاقی نظام حکومت، محکوموں ، مظلوموں اور عاجز قوموںکے بنیادی اور حقیقی مسئلہ حریت اور اسکے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل کو میڈیا کی کماحقہ کوریج ملے توانقلاب لایا جا سکتاہے۔ اغیارکی فکری اورتہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمان اپنے زیر اثرذرائع ابلاغ کو متحرک اورفعال بنا کر فکری و تہذیبی یلغار کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔معاشرے میں ہونیوالے مختلف النوع مظالم، ناانصافیاں،لوٹ مار،ڈاکے ،دھوکے، غضب وغصب اورفراڈ کوطشت از بام کریں۔ انسانی حقوق کے تحفظ امن وسلامتی اور سماج کی ترقی اور ہر اچھے اورنیک کاموں کے فروغ اوراسکے پھیلائو کیلئے بروئے کار لائیں۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں امریکہ کے چند محققین اور سائنسدانوں نے پیغام رسانی کے لیے ایک نیا ذریعہ ایجاد کیا۔ اسے انٹرنیٹ کا نام دیا گیا ، کیونکہ یہ مختلف کمپیوٹرز کے باہمی ربط سے وجود میں آنے والا ’’نیٹ ورک‘‘ تھا۔ ابلاغ کے اس نظام کے ذریعے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ معلومات، پیغامات اور احساسات کی ترسیل ممکن ہو سکی۔ چند ہی سالوں میں انٹرنیٹ کو حکومتی دفاتر سے نکال کر منڈیوں اور درسگاہوں تک پھیلایا گیا۔ صارفین کی تعداد بڑھتی گئی۔ کمپیوٹر کا مالک ہر شخص ، یا پھر کمپیوٹر تک رسائی رکھنے والا ہر فرد دھیرے دھیرے انٹرنیٹ سے ایک تار کے ذریعے منسلک ہونے لگا۔ لوگوں کے درمیان ’’برقی خطوط ‘‘کا تبادلہ ہونے لگا۔ برق رفتار الیکٹرانک میل ’’ای میل‘‘ نے وقت اور جغرافیائی حدود کو بے معنی کردیا۔ مہینوں اور ہفتوں میں مکمل ہونے پیغام رسانی کا عمل ایک جست ، ایک لمحے ، میں طے ہو نے لگا۔ لیکن انسان اس آسانی پر بھی خوش نہ تھا۔ کچھ محققین کو ایسا لگ رہا تھا کہ صرف’’ ای میل ‘‘سے کام نہیں نہیں چلے گا، کیونکہ ای میل کے ذریعے آواز کا فوری تبادلہ ممکن نہیں ہے، اور متحرک تصویروں ’’ویڈیوز‘‘کا فوری تبادلہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔ انٹرنیٹ کی تجدید ہوتی رہی۔ برقی شعاعوں کو مضبوط تر بنانے کا عمل جاری و ساری رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھاری برقی مواد کا انٹرنیٹ کے ذریعے تبادلہ ممکن ہونے لگا۔ آواز اور ویڈیوز کے ذریعے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے زیادہ بامعنی ، پر تاثیر اور حقیقی انداز میں مسنلک ہونے لگے۔ ان رابطوں کے ذریعے انٹرنیٹ میڈیا’’سوشل میڈیا‘‘کا وجود عمل میں آیا جو بہت سارے حوالوں سے روایتی میڈیا سے بہتر ہے۔ جب لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد انٹرنیٹ پر موجود ’’سوشل نیٹ ورک‘‘ سے منسلک ہونے لگے تو اسے ذاتی رابطوں کے علاہ خبرنگاری اور خبر کی ابلاغ کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی طرح کا ایک منفرد اور متبادل میڈیا وجود میں آیا۔ انٹرنیٹ میڈیا کی ایک خوبی یہ ہے یہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی نسبت بہت سستا ہے۔ اس میڈیا پر خبر چلانے کے لیے بہت زیادہ اسباب اور افرادی قوت کی ضرورت نہیں، اور اسکی رسائی پرنٹ میڈیا کی نسبت زیادہ ہے۔ اسکے علاوہ،سوشل میڈیا کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں تحریری مواد، آواز اور ویڈیوز کے علاوہ ساکت تصویروں کو ایک ساتھ استعمال کیا جاسکتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبا سارے اخبار اور ٹی وی چینلز بھی لوگوں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے سوشل میڈیا استعمال کرنے کیلئے مجبور ہیں۔ سوشل میڈیا کے پھیلائو سے عام شہری اپنے علاقے کی خبریں پوری دنیا تک پہنچانے کے قابل بن چکے ہیں۔ اسکے لیے ضروری ہے کہ ان کی انٹرنیٹ تک رسائی ہو اوروہ ساکت اور متحرک تصویروں ’’ویڈیوز‘‘ اور ریکارڈ شدہ آواز یا تحریر ی مواد کا بہتر استعمال جانتے ہوں۔ سوشل میڈیا پر متحرک عام شہری صحافیوں کو سیٹیزن جرنلسٹ کہا جاتا ہے اور اس وقت پوری دنیا میں لاکھوں عام شہری مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے نہ صرف اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کی تفاصیل بیان کر رہے ہیں بلکہ جاندار تجزئیے بھی پیش کر رہے ہیں ۔ کارپوریٹ ’’تجارتی‘‘ مفادات کے شکار پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دور میں سوشل میڈیا اور شہری صحافی ایک ایسے متبادل میڈیا کی تشکیل کر رہے ہیں جس سے عام لوگوں کے مسائل اور انکے خیالات اور احساسات تک قارئین کی رسائی ممکن ہو پارہی ہے۔ ایسی خبریں جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بوجوہ جگہ حاصل نہیں کرپاتے، انہیں سوشل میڈیا میں پذیرائی حاصل ہوپارہی ہے۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اہم نوعیت کی خبریں پہلے سوشل میڈیا پر آجاتی ہیں اور یہاں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے عامل صحافی خبریں اٹھا کر اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچاتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے عام شہریوں کو خبریں بنانے اور لوگوں تک پہنچانے کے بہترین مواقع فراہم کیے ہیں، لیکن خبر نگاری کی فن میں مہارت نہ رکھنے کی وجہ سے عام شہریوں کی صلاحیتوں سے بہتر فائدہ نہیں اٹھایا جا پارہا ہے۔ اسی لیے عام شہریوں کو خبرنگاری کی مناسب تربیت دے کے ا ن کے کام میں بہتری پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں موبائل فون کے صارفین کی تعداد پانچ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ غالبا اسی لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے فروغ کے لئے کام کرنے والے ادارے ایسی ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے مسلسل کوشاں ہیں جس سے موبائل فون پر ہی صارفین کو انٹرنیٹ میسر ہوسکے۔اس سلسلے میں دنیابھرمیں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی تک رسائی اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ آنے والے مہینوں اور سالوں میں موبائل فون کے صارفین تیز رفتار انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا سے منسلک رہ سکیں گے ۔ سوشل میڈیا کے پھیلائو سے جہاں ایک طرف بہت ساری آسانیاں پیدا ہوئی ہیں، لوگوں کو اپنے کاروبار کی تشہیر کرنے ، اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے اور ان کی آرا سننے کے بہترین مواقع ملے ہیں، وہاں دوسری طرف اسکے مضر سماجی اثرات بھی ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ دوسرے تمام آلات کی طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بہتر یا پھر بد تر استعمال صارف کی صوابدید پر ہے۔ بہتر استعمال کیا جائے تو انٹرنیٹ اپنے گہرائی اور وسعتوں میں علم کے خزینے پنہاں رکھتا ہے، لیکن اگر اسکا منفی استعمال کرنا چاہے تو ذہنی اور فکری تباہی کا سارا سامان بھی اسی انٹرنیٹ پر میسر ہے۔ میڈیاکی اگرچہ آج کل تین قسمیںہیں جنہیں ہم الیکٹرانک ،پرنٹ اورسوشل میڈیا کے نام سے جانتے ہیںلیکن بنیادی طورپرمیڈیا کے دوہی اجزاہیں، الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا،سوشل میڈیاان دونوں کا نچوڑیا ملغوبہ ہے۔میڈیا معاشرہ کا آئینہ دار ہوتاہے، اور معاشرہ کا رہبر بھی۔دورحاضرمیںمیڈیا کو معاشرہ کی تشکیل میں کلیدی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ انسان ذرائع ابلاغ چاہے وہ سمعی ہو،چاہے مرئی، چاہے اس کاتعلق پڑھنے سے ہوسے برابر رابطے میں رہتا ہے جو قوم یا ریاست ترقی کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے،اس کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کو ساتھ لے کرچلے۔وقت نے ثابت کردیا ہے کہ میڈیا کے بغیر اس دور میں ترقی کا تصور اور اپنی بالادستی کا خیال ایک وہم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آج کل سیاسی اور ثقافتی امور میں سامراجی طاقتیں یہ حربہ اپناتی ہیں کہ مسلمانوں کواغیاراور مغرب کے طرز فکر کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا کر دیں۔ خواتین کے نام نہاد حقوق کامسئلہ کھڑاکیاجارہاہے یا پھر حریت پسند تحریکوں کوخوفناک طریقوں کے ساتھ پیش کیاجارہاہے جس کامقصدواحد اپنے فریق کو پسپائی پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔ اس کیلئے اغیار اور مغربی حکومتیں بھاری ہنگامہ آرائی کرتی ہیں۔اس کیلئے اول سے آخرتک میڈیاکورول سونپا جا رہاہے اور میڈیاحقائق کواس طرح مسخ اور خلط ملط کر کے پیش کرتا ہے کہ عوام الناس کنفیوز ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ حکومتوںکو چاہئے کہ حقوق نسواں اور دلیل کوتولنے والی نہیں بلکہ گننے والی رائج الوقت جمہوریت کے بارے میں اپنے غلط نقطہ نگاہ کی اصلاح کریں اور اسے عدل وانصاف کی کسوٹی پر پرکھیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیاکے لگ بھگ تمام بڑے میڈیا گروپوں کا تعلق بڑے ٹرسٹوں اور سرمایہ داروں سے ہے۔دنیاکے کسی بھی بڑے میڈیا نیٹ ورک کا نام بتائیے جوکسی سرمایہ دار کی ملکیت نہ ہو۔مقامی سطحوں کے قلیل الاشاعت اور چھوٹے اخبارات کوچھوڑکرکون سا میڈیا نیٹ ورک ہے جو متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے انسان اس طبقے کی آزادی کا اندازہ کر سکے؟