1990ء کے بعدیہ دوسراموقع ہے کہ جب مقبوضہ کشمیرسے لوگوںکاانخلاء عمل میں لایاجارہاہے۔ 1990ء میں گورنر جگموہن نے یہ کہتے ہوئے کہ کشمیری مسلمانوں کے خلاف خونین فوجی آپریشن شروع ہونے والے ہیںتواس دوران کشمیری ہندئووںکوکوئی گزندنہ پہنچ پائے، کشمیری ہندئووں کو وادی کشمیرسے نکال کرجموں اوردہلی منتقل کر دیاگیاتھااورکشمیری ہندئووں کے انخلا ء کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں بڑے بڑے فوجی آپریشن ہوئے جن میں ہزاروں کشمیری مسلمان شہیدکردیئے گئے جبکہ آج 2019ء کے انخلاء کے وقت بھی مقبوضہ کشمیرمیںگورنرراج نافذہے فرق صرف یہ ہے کہ آج غیرریاستی سیاحوں اورہندویاتریوں کاانخلاء عمل میں لایاگیااورحفظ ماتقدم کے پیش نظریہی لگ رہاہے کہ بڑے پیمانے پرکشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔اس دوران جنگ بندی لائن پرجوسماں نظرآرہاہے اس سے یہ بھی غالب امکان ہے کہ ہندو چانکیہ کی طرف سے آزادکشمیرکے کسی علاقے پرجبری قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ گذشتہ کئی ہفتوں سے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کسی بڑی کارروائی کے امکانات نظرآرہے ہیں۔مقبوضہ وادی میںہرطرف انہونی خوف چھایاہواہے اورملت اسلامیہ کشمیرخوف و ہراس کی گرفت میں ہیںجبکہ کٹھ پتلی گورنرانتظامیہ کی طرف سے کئے جانے والے بعض اعلانات اورہندوستان کی قابض فوج کی مزید280 فوجی کمپنیوںکی وادی کشمیرآمداوربڑے پیمانے پرفوجی نقل و حمل کسی خوفناک کارروائی کے خدشے کوبڑھارہے ہیں۔جمعہ 2اگست کوکٹھ پتلی گورنرانتظامیہ کے پرنسپل سیکرٹری کاایک آرڈرجاری ہواجس میں ہندوستان بھرسے امرناتھ گھپا کے درشن پر آئے ہوئے ہزاروںہندو یاتریوں اوربھارتی اوردیگرغیرممالک سے آئے ہوئے سیاحوں کو فوراً وادی کشمیرچھوڑنے کے لئے کہا گیا ہے۔3اگست ہفتے سے وادی کشمیرسے سیاحوں اور یاتریوں نے وادی سے نکلنے کا آغازکردیا ہے۔اس دوران وادی کشمیرمیں مزدوری کے لئے آئے ہوئے غیر ریاستی مزدوروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں غیر ریاستی مزدوروں نے وادی سے کوچ کرنیکا آغاز کردیا ہے۔سوشل میڈیا پر کئی بھارتی ریاستوں سے آئے ہوئے مزدوروں کو روتے بلکتے ہوئے دیکھا گیا ہے اسکے ساتھ ہی وادی کشمیر کے پیٹرول پمپوں کے باہر بدستوربھیڑموجودہے اورگاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی ہیںجبکہ اے ٹی ایموں کے باہر بھی بینک کھاتے داروں کی قطاریں لگی ہوئیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مختلف ٹورسٹ مقامات پر قریب تقریباََ30ہزار سیاح مقیم تھے جنہیں جمعہ کی شام سے ہی پہلگام اور گلمرگ کے علاوہ سونہ مرگ، یوسمرگ اور سرینگر کے ہوٹلوں میں مقیم سیاحوں کو زبردستی نکالا گیا اور رات کے دوران ہی انہیں وادی کشمیرسے نکالنے کے لئے سرکاری ٹرانسپورٹ کی بسیں کام پر لگا دی گئیں جبکہ بھارت کی سول ایوی ایشن نے اضافی پروازوں کا انتظام کیا ۔اتوار4اگست کی صبح جب یہ سطورحوالہ قلم کررہاہوں 10ہزار سیاحوںکو پروازوں کے ذریعہ سری نگرسے نئی دہلی پہنچادیاگیاہے اورسری نگرمیںجو ہنگامی صورتحال دیکھنے کومل رہی ہے اس سے لگتاہے کہ آج شام تک سبھی سیاحوں کو دلی پہنچایاجائے گا۔سرینگر ائر پورٹ پر پہلی بار جم غفیر دیکھنے کو مل رہا ہے اورمعمول سے یکسرہٹ کرپروازیں اڑان بھر رہی ہیں۔ اسلامیان کشمیرکاکہناہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں حاصل خصوصی پوزیشن کو ختم کیا جائے گا اور ممکنہ عوامی ردعمل کو روکنے کے لئے فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ تاہم بعد میں گورنرنے کہا آئین کی دفعہ 35-A کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہو گی۔ واضح رہے کہ بی جے پی کشمیر کے انڈین وفاق میں مکمل انضمام کی مہم ستر برسوں سے چلا رہی ہے۔ پہلی مرتبہ اس پارٹی کو سیاسی غلبہ حاصل ہے اس لئے کسی بڑے ایڈوانچرکوخارج از امکان قرارنہیں دیاجاسکتا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ایک سال سے نئی دلی کا براہ راست انتظام گورنر ستیہ پال ملک کے ذریعہ چل رہا ہے۔اس دوران یہ بھی بتاچلاہے کہ مودی حکومت نے کشمیر میں ہندو اکثریت والے علاقوں جموں اورلداخ کو علیحدہ ریاست جبکہ وادی کشمیر اورلداخ کوبراہ راست دہلی کے زیرِ انتظام خطہ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ایسالگ رہاہے کہ مودی سرکارمقبوضہ جموںوکشمیرکو حاصل خصوصی اختیارات آرٹیکل 35اے کو 15اگست2019ء کے بعد کالعدم قرار دینے کے بارے میں حتمی فیصلہ لے چکی ہے اور اس پرکشمیری مسلمانوں کے متوقع شدیدردعمل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی اضافی فوجی کمپنیوں کو تعینات کیا جارہا ہے۔ مودی کے پچھلے دوراقتدارمیںمقبوضہ جموںوکشمیرکی خصوصی پوزیشن کی حامل دفعہ 370کی ذیلی شق 35Aکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی افواہیں تیزی سے پھیلتی رہی ہیں۔دفعہ 370کی ذیلی شق 35 اے کا معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس کی اگلی اورحتمی سماعت جلد ہی شروع ہونے والی ہے۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ وہ دفعہ 370اوراسکی ذیلی شق 35Aکو ختم کرے گی۔ چندہفتے قبل بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ جب کشمیرکے دوروزہ دورے سے دہلی لوٹے تو انہوںنے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ دفعہ 370 اوراسکی ذیلی شق 35A ایک عبوری انتظام ہے۔ واضح رہے کہ دفعہ 370کی ذیلی شق 35A شق میں اِس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ کون کشمیر کا مستقل باشندہ ہے اویہ کہ کشمیرکامستقل باشندہ ہی کشمیر میں آباد ہو سکتا ہے اور زمین اورجائیداد خرید نے کا مجاز ہے۔