تاریخ انسانی شاہد ہے کہ ہر دور میں پاسبان حرمت قلم زہر کھا کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے اور دار پر چڑھ کر ظلم کو ظلم اور سچ کو سچ کہہ کر لازوال تاریخ رقم کرتے رہے ہیں۔ صحافیانہ صلاحیتوں کو بروئے کارلاکرجابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کے لئے ایک صحافی قلمی یااشاعتی محاذ پرکھڑا رہے حقیقت میںیہی صحافتی خدمات کا مطلب ہوتاہے ۔صداقت پسندی ،دیانتداری ،جرات و بے باکی کے ساتھ ایک شخص کھڑارہے اور جابر حکمرانوں کے کرتوت اورانکے اخلاقیات بد کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے عوام ،اہل وطن کوباخبررکھے یہی صحافت کہلاتی ہے ۔صحافت محض ایک شعبہ نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کا ایک اہم ستون ہوتاہے جس کی وجہ سے اسے بڑی اہمیت و افادیت حاصل ہے۔ یہ امرمتفق علیہ ہے کہ مظلوم خطوں کے عوام کوظالم حکمرانوںسے نجات دلانی ہے یاکم ازکم ان کامہیب چہرہ بے نقاب کرناہے تواسکے لئے آزادی صحافت شرط اولین ہے۔ اکتوبر17بدھ کوشہرسری نگر کے فتح کدل علاقے میںکشمیرکے مقامی میڈیاکے نمائندگان اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ 2درجن سے زائدفوٹوجرنلسٹوںپر بھارتی فوجی اہلکاروں کاتشددصحافیوں پر حملہ بدترین ریاستی دہشتگردی، بربریت، بوکھلاہٹ،ننگی جارحیت اورکھلی فسطائیت ہے۔ فتح کدل علاقے میں ہونے والے معرکے کے اختتام پر پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے کیلئے جائے موقع پر پہنچے اس دوران حسب روایت فوجی اہلکار اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور وہ میڈیا نمائندوں ، فوٹو گرافروں ، ویڈیو جرنلسٹوں پربرس پڑے اورانکی ہڈی پسلی ایک کردی اور کپڑے پھاڑ ڈالے ۔ کشمیر ایڈیٹرز گلڈ اور جے کے ایڈیٹرز فورم نے اہلکاروںکی اس بہیمانہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ پریس نمائندوں کی ہڈی پسلی ایک کرنا جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ ہے۔گزشتہ تین عشروںکے دوران کشمیرمیںہرفوجی ایکشن یہ ثابت کرتارہاہے کہ فوجی ا ہلکار کشمیری مسلمان کالاحقہ یاتعارف رکھنے والے ہرمتنفس کوروندتے چلے جاتے ہیں۔ سری نگرمیں صحافیوں پر ہوئے تشددکے بدترین واقعے نے اس امرپرمہرتصدیق ثبت کردی کہ بھارتی فوجی اہلکار اپنا وطیرہ بدلنے کے لئے ہرگزآمادہ نہیں۔ سری نگر شہر میںجس طرح ایک بار پھر صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا ،اس سے ایک بارپھریہ بات اثبات کو پہنچ چکی ہے کہ کشمیر دنیاکے ان دیگر خطوںکی طرح ایک ایسامقبوضہ علاقہ ہے کہ جہاں قابض قوتوں اوراسکی ظالم فورسزکی ظالمانہ کارروائیوں کوطشت از بام کرنے والے صحافیوں کو زیر عتاب لایا جارہا ہے تاکہ وہ قابض قوتوں اوراسکی سفاک فورسزکے سامنے گھٹنے ٹیک کرانکی مرضی اور پسند کا بیانیہ پیش کرنے پر ہی اکتفا کریں۔گزشتہ تین عشروں کے دوران کشمیر میں جس طرح کارکن صحافیوں کوپیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران فوجی اہلکاروں کی جانب سے ہراسانی اور پریشانی کا سامنا رہا ہے ،وہ اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ جان بوجھ کرکشمیری صحافیوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے ۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ فوج اور دیگرحکومتی ادارے اپنے خلاف تنقیدبرداشت نہیں کر پارہے ہیں اور اس تنقید کو ملک و قوم دشمنی پر محمول کیاجارہا ہے جس کی واضح مثال حالیہ ایام میں کئی صحافیوں کی این آئی اے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق آزادیِ صحافت ایک بنیادی انسانی حق ہونے کیساتھ ساتھ تمام آزادیوں کی کسوٹی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں صحافت کی آزادی کسی معاشرے میں آزادی بیان اور اظہار ِ رائے کے احترام کی عکاسی، حکام اور حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور ذرائع ابلاغ میں اس نکتہ چینی کی آزادانہ اشاعت سے معلوم ہوتی ہے۔ معلومات کی آزادانہ فراہمی عوام کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اس کی روشنی میں حکومتوں اور انکی کارروائیوں کا احتساب کر سکیں۔صحافت سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور اگر یہ آزاد ہو تو سماج اور حکومت کی صحیح عکاسی ہوسکتی ہے ،جس کے ذریعے ایک کامل سماج کی تعمیر ممکن بن سکتی ہے۔اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلاب نے صحافت اور ذرائع ابلاغ کو انتہائی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے کیونکہ اب قارئین ،ناظرین و سامعین ترسیل و ابلاغ کے مختلف ذرائع کے توسط سے پل پل کی خبر سے باخبر رہ پاتے ہیں۔ کشمیرکے صحافیوں پرتشددکی کاروائیاں ڈھانے کے پیچھے جونامراداورمذموم مقاصد ہیں وہ یہ کہ کشمیرکے صداقت گواپنے قلم توڑ دیں ، زبانیںبند کریں، آزادنہ سوچنا ترک کریں، سچ بولنے سے باز آجائیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیاایسی دھرتی پریہ ممکن ہے کہ جہاں کی فضائیں رورہی ہیں،جہاں دریائو ں میںپانی کے بجائے خون بہہ رہا ہواورجبل ودشت نالہ فغاں ہوں۔ کیا ایسے میںقلم خاموشی اختیار کرنے کے جرم کاارتکاب کر سکتاہے، کیا حکایات خونچکاں لکھنے سے وہ خوفزدہ ہو سکتاہے۔ اسے تین عشروں سے بے خطر بولنے کی عادت ہے اوراس میں کڑوا سچ کہنے کی ہمت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے۔اگریہ جرم ہے تووہ اس جرم کاارتکاب باربارکرتارہے گابے شک اسے شجاعت کے قتل کی کڑی سے کڑی سز ادی جائے، صداقت بیانی پراس کا گلا دبوچ لیاجائے، خامہ حق بیان کی روشنائی اس سے چھین لی جائے ، راست گوئی پراسے لہو لہو کفن میں لپیٹ لیاجائے، دن دیہاڑے بہیمانہ اندازمیں اسے قتل کیاجائے ،لیکن جرات ِاظہار ہوتارہے گا۔ اچھاہواکہ بعض باضمیر بھارتی صحافی بھی سری نگرکے فتح کدل میں صحافیوںپرتشدد کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کشمیرکے معتوب صحافیوں کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔سدھارتھ واردھراجن نے کہا کہ بھارت بھر کی میڈیا برادری کشمیری صحافیوں کو نظر انداز کر رہی ہے سرینگر میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران معروف صحافی اور پارلیمان شمیم احمد شمیم کی کتاب ’’آئینہ نما‘‘ کے12ویں جلد کی رسم رونمائی کے موقع پرمعروف بھارتی صحافی سدھارتھ وارد راجن نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ اس قدر مضبوط بنیں کہ بیرونی دبائو پر قابو پاسکیں۔ ان کاکہناتھاکہ بھارتی میڈیا کے ایک حصے میں ایڈیٹوریل میں فرقہ پرستی کا مواد اب عام ہوگیا ہے جس کے باعث آج ہم جانور اور حیوان ہیں۔ معروف بھارتی صحافی سدھارتھ واردراجن نے فورسز کی جانب سے صحافیوں کی مارپیٹ کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس واقعہ سے جموں کشمیر کی ناگفتہ بہ صوتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر کیمرے کے سامنے صحافی برادری کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاسکتا ہے، تو کیمرے کے بغیر اندھیرے میں عام لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جارہا ہوگا؟