یہ طے کرنے کے لئے زیادہ وقت صرف نہیں ہو گا کہ آسٹریلیا اور مشرق وسطیٰ میں سے کون سی آگ کرہ ارض کے لئے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ ایک زمین زادہ ہونے کی وجہ سے مجھے گھاس کے ہر تنکے، پھول‘ پودوں اور درختوں کے گردمنڈلاتے ہر جانور اور پتنگے سے محبت ہے۔ ایک انسان ہونے کے ناطے مجھے افریقہ‘ امریکہ‘ یورپ‘ ہندوستان اور مشرق وسطیٰ میں بے گناہوں کے بدن سے ٹپکنے والے خون کے ہر قطرے پر تشویش ہے۔ آسٹریلیا حیاتیاتی و تباتیاتی تنوع کی سرزمین ہے۔ کرکٹ تو ایک کھیل ہے۔ آسٹریلیا نے زراعت میں اتنی ترقی کی ہے کہ پوری دنیا کے زرعی محققین وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ حالیہ آگ جھاڑیوں سے پھیلی‘ مہینوں سے لگی اس آگ میں 480ملین جانوروں کے مارے جانے کا تخمینہ ہے۔480ملین کا مطلب آدھا ارب ہے۔ ان اعداد و شمار میں ممالیہ جانور‘ پرندے اور رینگنے والے جاندار شامل ہیں مگر کیڑے مکوڑوں کی گنتی نہیں۔ چمگادڑوں اور مینڈکوں کا شمار نہیں۔ بہت سے جانور آگ کی لپیٹ میں آ کر بھسم ہوئے اور جنگلی بلیوں و سرخ لومڑیوں جیسی بعض انواع پناہ گاہوں اور خوراک کی تباہی کے بعد مر گئیں۔ اس آگ نے کئی جانداروں کی نسلیں معدوم کر دی ہیں۔ اب انسان انہیں دوبارہ نہیں دیکھ سکے گا۔ آسٹریلیا میں کوالا بہت معروف جانور ہے۔ چھوٹے سے ریچھ جیسا دکھائی دینے والا کوالا تیزی سے حرکت نہیں کر سکتا۔ کسی خطرے کی صورت میں یہ درختوں کی بلند شاخوں پر جا کر خود کو شاخ کے ساتھ لپیٹ لیتا ہے۔ اس آگ کے دوران کوالا محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے کی بجائے درختوں پر چڑھ گئے۔ آسٹریلیا میں 50ہزار کوالا ہیں جن میں سے آدھے آگ کھا گئی ہے۔ اس آگ نے ویسٹرن گرائونڈ پیرٹ اور زمین پر رہنے والے متعدد پرندوں کی بڑی آبادی ختم کر دی ہے۔ شہد کی بہت سی مکھیاں ختم ہو گئی ہیں۔ کنگروز اور ولابیز کسی خطرناک صورت حال میں تیزی سے محفوظ مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔ آگ نے ان کو بھاگنے کا موقع نہ دیا۔اندازہ ہے کہ نئے سال کے ابتدائی دنوں میں سینکڑوں کینگروز زندہ جل گئے۔ آسٹریلیا میں پہلے بھی جنگلات میں آگ لگتی رہی ہے۔1983ء میں جب آگ بھڑکی تو ماہرین نے 1526افراد کا انٹرویو کیا۔ ان لوگوں کا گھر‘ املاک یا مویشی آگ کی نذر ہوئے تھے۔ ان میں سے 42فیصد افراد میں نفسیاتی مسائل باقی افراد کی نسبت دوگنا ہو چکے تھے۔20ماہ کے بعد یہ شرح بہرحال کم ہو کر 23فیصد ہو گئی تھی۔2016ء میں مغربی آسٹریلیا میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ نے یارلوپ قصبے کو خاکستر کر دیا۔180مکانات‘ تاریخی حیثیت کی ٹمبر ورکشاپس‘ فیکٹریاں‘ ایک قدیم چرچ‘ پرانا ہسپتال‘ ہوٹل‘ فائر سٹیشن‘ سکول‘ دریائوں کے پل اور بجلی گھر جل گئے تھے۔ اگرچہ صرف دو افراد مارے گئے تھے مگر آج بھی اس علاقے کے افراد کی ذہنی حالت صدمے کے باعث متوازن نہیں۔ مالی نقصان کے علاوہ جنگلوں میںرہنے والے ان افراد کے لئے نقل مکانی ناقابل برداشت ہے۔ یہ لوگ آج بھی اپنے راکھ ہوئے قصبے کی دوبارہ تعمیر کے خواب دیکھتے ہیں۔ اب دوسری آگ کی تباہی دیکھ لیتے ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ جنگ عظیم اول میں 15ملین افراد مارے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں 60ملین نفوس جان سے گئے۔ نائن الیون کے واقعات نے امریکی نفسیات کو تبدیل کر دیا۔ امریکی غصے نے حفظ ماتقدم کے طور پر حملوں کی پالیسی متعارف کرائی یعنی کسی دشمن کے متوقع حملہ سے پہلے اس پر حملہ کرنا‘ افغانستان‘ عراق اور اب ایران کے خلاف کارروائی اسی ذیل میں شمار ہو گی۔ مسلح تنازعات کا جائزہ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر میں 20سے 30ملین افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار تنہا امریکہ ہے۔ امریکی شہری ہلاکتوں کی اس تعداد سے واقف نہیں۔ انہیں ان پراکسی جنگوں میں ہلاک امریکیوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بتائی جاتی ہے جو امریکہ نے دنیا بھر میں چھیڑ رکھی ہیں۔ ایرانیوں نے 1980ء سے 1988ء تک جاری ایران عراق جنگ میں 2لاکھ 62 ہزار فوجی گنوائے۔ یہ سب امریکی ایما پر چھیڑی گئی جنگ کے اعداد و شمار ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں ہلاک ہونے والے عراقی فوجیوں کی تعداد 1لاکھ 5ہزار بتائی۔ امریکہ نے 17جنوری 1991ء کو عراق کے خلاف فضائی حملے شروع کئے۔ یہ حملے 42دن تک جاری رہے۔23فروری کو صدر بش سینئر نے زمینی دستوں کو حملوں کا حکم دیا۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ امریکہ کے 150فوجی ہلاک ہوئے جبکہ دو لاکھ عراقی اس جنگ کا لقمہ بنے۔ امریکہ نے عراق کی شاہراہوں پر روک کر شہریوں کو قتل کیا۔1995ء میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے رپورٹ پیش کی کہ عراق پر امریکی پابندیوں کے باعث 1990ء سے 1995ء تک 5لاکھ 60ہزار عراقی بچے جاں بحق ہوئے۔1996ء میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر میڈلین البرائٹ نے اعتراف کیا کہ عراق میں 5لاکھ بچے مرے ہیں۔1999ء میں یونیسف نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہر مہینے عراق میں 5ہزار بچے مر رہے ہیں۔ ان کے مرنے کی وجہ امریکی پابندیاں تھیں۔ مشرق وسطیٰ کی آگ اسرائیل اور فلسطین تک پھیلی ہوئی ہے۔ اب تک یہ تنازع تین لاکھ جانیں لے چکا ہے۔ امریکہ اسرائیل کا غیر مشروط حامی ہے اور اسے سالانہ اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ یہ بچے گھاس پھونس اور جھاڑیاں ہیں۔ جن کو یمن‘ شام‘ لبنان تک کے علاقے میں مارا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں مسلح تنازعات بہت سے تاریخی آثار کو ملیا میٹ کر چکے ہیں۔ کئی انسانی نسلیں معدومی کے خطرے میں ہیں۔ ایک آگ ہے جو اقوام متحدہ سے قابو نہیں ہو رہی، ایک تباہی ہے جس کا کوئی کنارہ دکھائی نہیں دے رہا۔