سپریم کورٹ نے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اورنگی اور گجر نالے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم دیدیا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اراضی واگزار کرانے کے لئے نسلہ ٹاور فوری طور پر گرانے کا حکم دیا ہے۔ عروس البلاد جو ترقی کی منازل طے کر رہا تھا ،دیکھتے ہی دیکھتے قبضہ مافیا ‘ بھتہ خوری ‘ چائنہ کٹنگ اور دہشت گردی کی آماجگاہ بن گیا ۔اس قدر بدامنی پھیلی کہ لوگوں نے اپنی جائیدادیں اونے پونے فروخت کر کے وہاں سے نقل مکانی کر لی ۔ اگرچہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جانوں کی قربانی دے کر دہشت گردی کے ناسور پر قابو پا لیا ہے لیکن قبضہ مافیا اور چائنہ کٹنگ بدستور جاری ہے جبکہ بھتہ مافیا بھی موقع ملنے پر اپنا رنگ دکھانے سے باز نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کراچی نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی عوام دشمن پالیسوں سے تنگ آکر 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو 14قومی اسمبلی اور 22صوبائی اسمبلی کی سیٹیں جتوانے کے بعد خواتین کی 9 مخصوص نشستیں بھی اس کی جھولی میں ڈالیں۔ جس کا مقصد اہل کراچی کے مسائل کو حل کر کے ان کے دکھوں اور محرومیوں کا ازالہ کرنا تھا لیکن پی ٹی آئی نے اتنی زیادہ نشستیں جیتنے کے بعد کراچی کے مسائل کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔جس کے بعد نہ صرف اہل کراچی ان سے ناراض ہو چکے بلکہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر عوام کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے سر گرم ہے ۔گزشتہ برس جب بارشوں نے کراچی میں تباہی مچائی تو وفاقی حکومت کو ہوش آیا کیونکہ کراچی کے پوش ایریاز جہاں پر حکومتی ایم این ایز اور ایم پی ایز کے گھر تھے ،جب پانی نے ان کے گھروں میں داخل ہو کر تباہی مچائی ،تو حکومت کو ہوش آئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے دورہ کے موقع پر 126ارب روپے کے کراچی پیکیج کا اعلان کیا۔اورساتھ ہی تین برس میں منصوبوں کی تکمیل کا وقت بھی مقرر کر دیا ،جس سے ایک امید قائم ہوئی تھی کہ اب اہل کراچی کے خواب پورے ہونے کا وقت آن پہنچا ہے ،لیکن ایک برس گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت کا کوئی بھی منصوبہ وہاں پر نظر نہیں آیا۔ اس کے باعث حالیہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو کراچی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صورت حال بذات خود پی ٹی آئی کے لئے بھی باعث تشویش ہے۔ گندے نالوں کی صفائی ‘ سڑکوں کی تعمیر‘ تجاوزات کی بھر مار اور چائنہ کٹنگ جیسے مسائل نے کراچی کے شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔ سرکاری پارکوں اور اراضی پر عمارتوں کی تعمیر دو دہائیاں قبل شروع ہوئی لیکن اس غیر قانونی اقدامات کے سامنے پل باندھنے کے لئے کوئی بھی حکومت آگے نہیں بڑھی۔ اس خاموشی سے شہہ پا کر الہ دین پارک میں پویلین کلب تعمیر کیا گیا کیونکہ کراچی میں قانون کی حکمرانی کبھی رہی ہی نہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں کراچی پر حکمرانی کرتے رہے جس کے باعث وہاں کے شہری ان دونوں جماعتوں کے مابین سینڈ وچ بن گئے تھے۔ سٹیل ملز،کے ایم سی اور کے ڈی اے میں اپنے اپنے چہیتوں کو زبردستی بھرتی کر کے ان اداروں پر اس قدر بوجھ ڈالا گیا کہ اب ان اداروں کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے پیسے ہی نہیں۔ صرف اس پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ سرکاری اراضی ‘ پارکس اور گندے نالوں پر چھتیں ڈال کر نہ صرف مکانات تعمیر کئے گئے بلکہ کئی کئی منزلہ عمارتیں بھی تعمیر کر دی گئیں۔ نسلہ ٹاور کی جگہ بھی ایسے ہی قبضہ میں کی گئی تھی۔ درحقیقت دونوں پارٹیاں پہلے اپنے چہیتے کارکنوں کو بڑے بڑے منفعت بخش عہدوں پر تعینات کرواتی تھیں بعدازاں انہی سے غیر قانونی کام کروائے جاتے تھے۔سندھ حکومت اب کہہ رہی ہے کہ نسلہ ٹاور کی منظوری کے ایم سی نے دی تھی ۔ اس بات کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب ایک غیر قانونی کام ہو رہا تھا تو سندھ حکومت اس پر خاموش کیوں بیٹھی رہی،اگر صوبے میں غیر قانونی کام ہو رہے تھے تو سندھ حکومت کو اس کے خلاف فی الفور ایکشن لینا چاہیے تھا ۔ اگر بات نہ سنی جاتی تو پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا لیکن سندھ حکومت نے سرے سے کوئی کام کیا ہی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ سندھ کی تباہی کی کوئی ایک جماعت یا حکومت ذمہ دار نہیں ہے بلکہ سب نے اس میںحصہ ڈالا ہے۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی اصلی حالت میں بحالی کے فیصلے کئے ہیں۔ جس میں اورنگی اور گجر نالے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے کا حکم دیا ہے لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے ہے کہ جن افسران نے زمینوں پر قبضے کرائے، نسلہ ٹاور کی تعمیر کی اجازت دی، الہ دین پارک میں پویلین کلب بنانے کی اجازت دے کر لاکھوں کروڑوں روپے اپنی جیبوں میں ڈالے ہیں کیا وہ لوگ ان ناجائزتعمیرات کا صفایا کریں گے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کے ایم سی صرف ایک گاڑی لے کر وہاں پر گئی اور پہلے مرحلے میں صرف چار دیواری گرائی گئی جبکہ دوسرے مرحلے میں چوکیداروں کے کمرے گرائے گئے۔ بہتر ہو گا کہ سپریم کورٹ ناجائز تعمیرات گرانے کے لیے کسی اور ادارے کو حکم دے، تاکہ ناجائز تعمیرات کا صفایا ممکن ہو سکے۔ اگر سپریم کورٹ نے صرف انھیں لوگوں پر اکتفا کیا تو جیسے ہی معزز ججز صاحبان وہاں سے اسلام آباد جائیں گے تو کام رک جائے گا ۔ماضی میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں ۔لہذا اس پر غور کیا جائے ۔