پاکستان میں کم آمدن والے اور متوسط طبقہ کے لوگوں کی اکثریت دو وجوہ کی بنا پر مکانات نہیں بناپاتے۔ ایک تو شہری زمین کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ دوسرے‘مکان بنانے کے لیے بینک آسانی سے قرض نہیں دیتے۔ پاکستان میں مکانوں کی بینک فنانسنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔جب تک یہ دونوں مسئلے حل نہیں کیے جائیں گے ملک میں مکانوں کی قلّت دُور نہیں ہوسکتی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایک کروڑ مکانات کی قلّت ہے۔ بڑے شہروں میں چالیس فیصد آبادی کرائے کے مکانوں میں رہتی ہے۔ ایک سال میں صر ف ساڑھے تین لاکھ نئے مکانات بنائے جاتے ہیں جبکہ ضرورت سات لاکھ کی ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ عوام کو پچاس لاکھ سستے مکانات بنا کر دیں گے۔ ڈیڑھ سال گزر گیالیکن اب تک اس وعدہ پر عمل ہوتا دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔موجودہ حکومت اپنی بقیہ ساڑھے تین سال کی مدّت میں ہر روزپونے چار ہزار مکانا ت تعمیر کرے تب ہی وزیراعظم پچاس لاکھ مکانات بنا کر دینے کا اپنا وعدہ پورا کرسکیں گے۔ یہ ممکن نہیں ۔ سرکاری وسائل اتنے نہیں کہ وہ مکانات کی تعمیر کے لیے حکومت کوئی خطیر رقم مختص کرسکے۔ ملک گھمبیر معاشی حالات سے دو چار ہے۔ حکومت نجی شعبہ سے شراکت داری کرے تب بھی اُسے اپنے حصّہ کے طور پرکچھ نہ کچھ رقم تو دینا ہوگی لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں۔موجودہ معاشی حالات میںبڑے پیمانے پر مکانات بنانے کا منصوبہ حقیقت پسندی پر مبنی نہیں ۔ حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہے کہ عام لوگوں کے لیے مکانات کی تعمیر کے لیے موافق حالات فراہم کردے۔ سب سے اہم‘ شہروں کے نواح میں خالی زمین مکانات بنانے کے لیے سستی ہو۔پلاٹ کی قیمت کم آمدن والے لوگوں کی پہنچ میں ہو۔ اس وقت شہروں میں زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں جسے خریدنے کی استطاعت کسی مڈل کلاس کے آدمی میں بھی نہیں ‘ غریب لوگوںکا تو ذکر ہی کیا۔لاہور میں زمین کی قیمت دس سے بیس لاکھ روپے فی مرلہ ہے۔ پلاٹ خریدنا اور بیچنا مال بنانے کا آسان طریقہ بن چکا ہے۔لوگ خالی پلاٹ مکان بنانے کے لیے نہیں بلکہ اسے چند ماہ یاچندسال بعد مہنگے داموں فروخت کرنے کے لیے خریدتے ہیں۔ گزشتہ دس سال میں شہروں میں رہائشی پلاٹوں کی قیمت میں تین سے چار گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال کاحل یہ ہے کہ حکومت قانون بنائے کہ کوئی شہری ملک کے شہروںمیںایک سے زیادہ مکان یا خالی پلاٹ کی ملکیت نہیں رکھ سکتا۔ جن افراد نے ایک سے زیادہ مکان یا پلاٹ خریدے ہوئے ہیںوہ ایک سال میں فروخت کریں بصورت دیگر متعین مدّت گزرنے کے بعدایک سے زیادہ پلاٹ حکومت بحقِ سرکار ضبط کرلے ۔جسے شوق ہے وہ چھوٹے قصبوں‘دیہی علاقوں میں ایک سے زیادہ مکان بنا لے‘ زمین خرید لے۔ پاکستان پر آبادی کا بہت دباؤ ہے ‘ زمین کم پڑتی جارہی ہے خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں روزگار اور شہری سہولیات دستیاب ہیں۔ جب تک شہروں میں ایک فرد کے لیے ایک پلاٹ‘ ایک مکان کی ملکیت کا اصول نہیں اپنایا جائے گا شہری زمین کی قیمتیں کم نہیں ہونگی ۔ البتہ جو سرمایہ کار مکانات بناکر بیچنے کے لیے پلاٹ خریدنا چاہتے ہیں ان کے لیے مخصوص قانون سازی کی جائے کہ کاروباری کمپنیاں مخصوص شرائط کے تحت زمین خرید سکتی ہیں اور ایک متعین عرصہ میں زمین پر مکان بنا کر بیچنے کی پابند ہوں گی ۔ دوسرے‘ حکومت شہروں سے متصل نواحی علاقوں میں ایسی ہاؤسنگ اسکیمیں بنائے جن میں بجلی‘ پانی‘ نکاسئی آب کی سہولتیں ہوں ۔ حکومت ان اسکیموں میں رہائشی پلاٹ دس بارہ سال کی آسان قسطوں پرصرف اُن لوگوں کو دے جن کو پاس اپنا ذاتی مکان یا پلاٹ نہیں ہے۔اگر کسی شخص کوصرف پلاٹ ہی مل جائے تو وہاں اپنی تھوڑی بہت جمع پونجی سے مکان بنانا شروع کرسکتا ہے ۔ بہت سے لوگ اپنے زیورات بیچ کر مکان بنالیتے ہیںیا دوستوں‘ عزیزوں سے اُدھار لیکربنالیتے ہیں۔ حکومت کے لیے پچاس لاکھ مکان بنا کر دینا ایک بہت ہی مشکل اور طویل مدّت کا کام ہے لیکن سستے پلاٹ بنا کر دینا نسبتاًقابلِ عمل کام ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت نجی شعبہ سے شراکت بھی کرسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مکان بنانے اور خریدنے کے لیے بینک فنانسنگ(قرض) بہت کم ہے۔ مکانوں کے لیے بینک فنانسنگ نہ ہونے کے برابر ہے یعنی جی ڈی پی (مجموعی قومی دولت) کا صرف اعشاریہ پانچ فیصد۔دسمبر دو ہزار اٹھارہ تک بینکوں اور سرکاری کمپنی ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے مکانات کے لیے مجموعی طور پر کُل بانوے ارب روپے مالیت کے قرضے دیے ہوئے تھے جواس شعبہ کا پوٹینشل دیکھتے ہوئے بہت معمولی رقم ہے۔ بینکوں کے قرضہ کے بغیر مکانات کی بڑے پیمانے پر تعمیر ممکن نہیں۔ پاکستان میں قوانین ایسے ہیں کہ بینک مکان کے لیے قرضہ دیتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ نادہندہ سے رقم نکلوانا مشکل ہوجاتا ہے۔ حکومت ان قوانین کو جلد بہتر بنائے ‘ نادہندگی کی صورت میں بینکوںکو جائداد ضبط کرنے یا خالی کروانے کے وسیع اختیارات دے۔ملک میں تیس لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازم ہیں۔ کم سے کم اُنہیںتو بینکوں کے ذریعے مکان کے لیے آسانی سے قرض ملنا چاہیے‘ انکی ضمانت تو حکومت بھی دے سکتی ہے کہ ان کی ماہانہ تنخواہ سے بینک کی قسط کاٹ لی جائے گی۔ ہاؤس فنانسنگ میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ بینک اورہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن مکان کے لیے جب قرض دیتے ہیں تومطالبہ کرتے ہیں کہ قرض لینے والا مکان کی کُل مالیت کا تیس سے چالیس فیصد پہلے خود ادا کرے۔ شہروں میں مکانات کی جتنی اُونچی قیمتیں ہیں اُن کا تیس ‘ چالیس فیصد ادا کرناکم آمدن اور متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے ممکن نہیں۔ یہ ادائیگی دس فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت خریدار کی طرف سے خود بینکوں کو ضمانت دے تو یہ معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ اگرملک میں صرف بینک فنانسنگ ہی آسان ہوجائے تو لاکھوں لوگ مکان خریدسکتے ہیں تاکہ اُن کی جان کرائے کے مکانوںسے چھوٹ جائے ۔