اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا کہنا ہے کہ مطالبات پورے نہ ہوئے تو پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں‘ ہڑتال اور سڑکیں بند کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ ہم اب ملک چلائیں گے۔ جناب فضل الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کے استعفے اور فوج کی نگرانی کے بغیر انتخابات پر متفق ہیں‘‘ رہبر کمیٹی اور مولانا فضل الرحمن کے مطالبات تاحال مبہم اور عوامی تائید سے محروم ہونے کے باعث شک کی نظر سے دیکھے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا سندھ سے چلنے والا مارچ اسلام آبادمیں تین دن گزارنے کے باوجود صرف جے یو آئی کا اجتماع ہے۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں سے قائدین آئے لیکن ان کے کارکن تاحال اجتماع سے دور اور لاتعلق ہیں۔ سیاسی اصولوں کی پاسداری اور جمہوری روایات کا احترام قوموں کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ دنیا کے جس ملک میں جمہوریت نے جڑیں پکڑیں وہاں کے لوگوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور سیاسی جماعتوں نے بدلتے وقت میں ظاہر ہونے والے نئے سیاسی مطالبات کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ امریکہ اور برطانیہ کی جمہوریت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہاں اقتدار اور اختیار بتدریج عوام کو منتقل ہوا۔ آج ان دونوں ملکوں میں کسی غیر جمہوری سوچ کو نشو و نما کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ مثلاً امریکہ میں مخالف صدر کو ہٹانے کے لئے مواخذے کو کبھی ہتھیار بنایا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ مواخذے کے طریقہ کار اور شرائط کو سخت کر کے صدر کے عہدہ کو تحفظ دیا گیا۔ برطانیہ میں بادشاہ سے اختیار بتدریج عوام کے نمائندوں کو منتقل ہوتا رہا۔ یوں چار پانچ صدیوں میں پارلیمنٹ اس قدر طاقتور ہو چکی ہے کہ وہ ہر فیصلہ کر سکتی ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 72برس ہوئے ہیں۔ ان برسوں کا وزن برطانوی اور امریکی جمہوریت کے برابر تو نہیں ہو سکتا مگر ہماری سیاسی قیادت یہ عزم نو دکھا سکتی تھی کہ وہ ریاست کے مفادات سے مخلص ہے۔ سیاسی رہنمائوں کی غفلت اور ناسمجھی ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ عوام نے جنہیںکبھی بھی وفاق میں حکومت سازی کا مینڈیٹ نہیں دیا وہ گروہ پورے ریاستی نظام کو دھرنے سے خوفزدہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس ملک نے کئی مارچ‘ لانگ مارچ اور دھرنے دیکھے ہیں۔ ماضی میں جتنے مارچ اور دھرنے ہوئے ان کا اہتمام کرنے والوں کے پاس اپنے فیصلے کے دلائل ہوا کرتے تھے۔ دور کیوں جائیں،2013ء میں جب تحریک انصاف نے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی تو لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ صرف مسلم لیگ ن تھی۔ جس نے کہا کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف نے تب الیکشن کمشن‘ عدلیہ اور دیگر متعلقہ فورموں پر داد رسی کی درخواستیں پیش کیں۔ اس وقت پوری انتظامی مشینری اور اس کے کل پرزے جب دھاندلی کی شکایات کا ازالہ نہ کر سکے تو تحریک انصاف نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کے ساتھ تحریک منہاج القرآن نے پنجاب پولیس کے ہاتھوں ماڈل ٹائون میں 14کارکنوں کی شہادت کے خلاف دھرنا دیا۔ دونوں کے مطالبات بہت واضح تھے اور دونوں حصول انصاف کے لئے متعلقہ اداروں اور پلیٹ فارم سے رجوع کر چکے تھے۔ تحریک انصاف نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف استعفیٰ دیں۔ بعدازاں مطالبات کے تمام نکات میں سے دو زیر بحث رہ گئے۔ چار حلقوں کے نتائج کی پڑتال اور آئندہ انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لئے اصلاحات۔ جمعیت علمائے اسلام‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنمائوں نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شاندار تقاریر کیں جن میں کہا گیا کہ عمران خان نے پارلیمنٹ میں معاملہ لانے کی بجائے دھرنا دے کر غلط روایت ڈالی۔ اس وقت پارلیمنٹ کی بالادستی پر ان تمام سیاسی رہنمائوں نے جو تقاریر کیں اب وہ سب مولانا کے مارچ اور دھرنے والوں کے سامنے اس سے بالکل متضاد موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دیر سے سہی تاہم خود کو مولانا کے منصوبوں سے دور کر کے اپنی جماعت کی ساکھ بچانے کی کوشش کی ہے۔ جو قابل تعریف عمل کہا جا سکتا ہے۔ رہبر کمیٹی میں پیپلز پارٹی کا نیا موقف جمعیت علمائے اسلام کی خواہشات پورا نہیں ہونے دے گا۔ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ میں حکومت ہے۔ سینٹ میں اس کے اراکین کی تعداد قابل ذکر ہے۔ قومی اسمبلی میں وہ تیسری بڑی جماعت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری خود کو متبادل قیادت کے طور پر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں پارلیمنٹ سے استعفوں‘ ہڑتال اور سڑکیں بند کرنے جیسی تجاویز کی حمایت پیپلز پارٹی کے لئے نئے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔ معلوم نہیں جناب فضل الرحمن حکومتی رٹ ختم ہونے کی بات کس وجہ سے کر رہے ہیںتاہم حکومت اور افواج پاکستان کے ترجمان واضح کر چکے ہیں کہ کسی کو ملک میںانتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ معلوم نہیں نئے حالات میں رہبر کمیٹی کی ہیئت کیا بنے اور آخر اس کمیٹی کی جگہ جے یو آئی ف اور پھر صرف جناب فضل الرحمن کو ہی سب فیصلے کرنا پڑیں۔غیر واضح اور مشکوک ایجنڈے کی پذیرائی کوئی سمجھدار نہیں کر سکتا۔ پاکستان بدعنوانی کے خلاف لڑ رہا ہے‘ سرحدوں پر دبائو ہے۔ خطے کے اہم تنازعات میں پاکستان کو اہمیت مل رہی ہے۔ تنازع کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کی کوششوں پر دنیا سنجیدگی سے غور کر رہی ہے‘ حکمرانوں کے غیر ضروری اخراجات اور قرضوں نے ملک کی معاشی بنیادیں کمزور کر دی ہیں۔ پوری پاکستانی قوم ان چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ ایسے میں کسی جماعت کو کس طرح اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ پورے سیاسی نظام کے بخیے ادھیڑ دے۔ مولانا اور حکومت کو چاہیے کہ مکالمے کو موقع دیں اور ملک کو انتشار کا شکار ہونے سے بچائیں۔