سیاسی نوکری کتنی پکی ہوتی ہے اس کا اندازہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل کے اچانک’’استعفے‘‘سے لگایا جا سکتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانگی سے قبل ایک مشیر عون چودھری کا بھی گھونٹ بھر لیا گیا۔ اقتدار بڑی ظالم چیز ہے، چاہے وزیر اعلیٰ پنجاب کے تر جمان کی سطح پر ہی ہو، اس کا نشہ انسان کو ایسے زمینی حقائق جو باقی سب کو نظر آ رہے ہوتے ہیں نظروں سے اوجھل کر دیتا ہے۔ گل صاحب جو امریکہ سے امپو رٹ کئے گئے تھے کچھ زیادہ ہی پھوک لے گئے تھے۔ چند روز قبل غالبا ً جوش خطابت میں وہ اپنی حدود سے تجاوز کر گئے۔ ان کا فرمانا تھا کہ پارٹی کے وہ لوگ جن کو عثمان بزدار وزیر اعلیٰ اچھے نہیں لگتے وہ تحریک انصاف چھوڑ دیں۔شاہ سے زیا دہ شاہ کی وفاداری کی ترجمانی خود شاہ کے لیے مصیبت کا باعث بن گئی۔ شہبا زگل جو صوبائی اسمبلی کے رکن بھی نہیں کے اس ارشاد پر پی ٹی آئی کے ایک ناراض رکن کا تبصرہ تھاکہ کیا پد ی اور کیا پدی کاشوربہ۔ اسے مکافات عمل نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ دو روز قبل یہ بڑھک مارنے والے کہ فلاں کی چھٹی ہو جائے گی کی خود چھٹی ہو گئی۔ شہبازگل کی میلان طبع ہی کچھ ایسی تھی کہ وہ یوتھیے سے باقاعد ہ سیاستدان نہیں بن پائے۔ امریکہ میں بیٹھ کر تبدیلی کے نعرے لگانا اور بات ہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کی ترجمانی یکسر مختلف عمل ہے۔ اکثر وہ مختلف ٹی وی چینلز کے پروگرامز میں جب بیٹھتے تھے تو آپے سے باہرہو جاتے اور توازن کھو بیٹھتے تھے۔ حال ہی میں، میں نے 92چینل پراپنے پروگرام میں بطور ترجمان وزیر اعلیٰ ان کی کا رکردگی پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ ان کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انھیں تو ٹکٹ کٹو اکر واپس امریکہ چلے جانا ہے۔ اس بات پر وہ اتنے برہم ہوئے کہ میرے خلاف ٹویٹر پر یوتھیوں نے گالی گلوچ کا طوفان برپا کر دیا۔ اس سے یہ بھی اند ازہ ہوا کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا پر کسی بھی اور سیاسی جماعت سے زیادہ تسلط ہے اور وہ مختلف فیک ناموں کے ذریعے ہذیانی کیفیت طاری کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ سیاسی حکمران کی امیج بلڈنگ ایک انتہائی محنت طلب تکنیکی کام ہے جو ہر شخص کے بس کا روگ نہیں۔ شہباز گل کے زوال کی ایک وجہ ان کی انتظامیہ کے معاملات میں بے جا مداخلت تھی۔ چند ماہ قبل ان کی ڈی پی او سر گودھا سے کھلم کھلا تلخی ہو گئی اور ان کا استدلال تھا کیونکہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان ہیں لہٰذا ہر محکمے میں مداخلت کرنا اور تبادلے کروانا ان کااستحقاق ہے، اس بنا پر سویلین بیورو کریسی اورپولیس میںانہیں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ جہاں تک عون چودھری کا تعلق ہے، ان کے پاس مشیر کا عہد ہ تو تھا لیکن کوئی دفتر اور کام نہیں تھا۔ سا لہا سال سے ان کا شمار عمران خان کے قریب ترین اور انتہائی معتمد ساتھیوں میں ہوتا تھا، حتیٰ کہ خان صاحب کی دونوں شادیوں کے موقع پر وہ گواہ بھی تھے۔ لیکن خان صاحب کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد ان کو اچانک اسلام آباد بدر کردیا گیا جس پر باخبر ذرائع کے مطابق یارلوگوںکا ماتھا ٹھنکا کہ عون چودھری کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ عون چودھری کے علاوہ بھی بہت سے ایسے لوگ ہیںجنہیں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد بنی گالہ سے فارغ کردیا گیا تھا۔ اس تنا ظر میں پنجاب سے ان کی فراغت کوئی زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ اب برطرفیوں کے ساتھ ساتھ صوبائی کابینہ میں توسیع بھی کی گئی ہے۔ اسد علی کھوکھر کو وزیر جبکہ آصف محمود کو مشیر بنا دیا گیا ہے۔ اس سے ایک روز قبل سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی جو مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما بھی ہیں نے وزیر اعلیٰ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ کچھ عرصے سے یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ عثمان بزدار کو تبد یل کیا جا رہا ہے لیکن فی الحال توان کا کلّہ مضبوط لگتا ۔ دراصل ایک انتہائی نوآمو ز سیاستدان کو وزیر اعلیٰ بنانے میں کوئی سیاسی حکمت عملی کار فرما تھی۔عثمان بزدار نے میرے ساتھ پہلی ملاقا ت میں بتایا کہ وہ تو اس پر بھی شکر گزار تھے کہ وہ تونسہ کے تحصیل نا ظم منتخب ہو گئے اور خود ان کے مطابق انھیں مال روڈ کے علاوہ لاہور کی سڑکوں سے بھی زیادہ واقفیت نہیں ہے۔ چودھری پرویز الٰہی دل سے یہ کہتے ہیں کہ وہ عثمان بزدار کے ساتھ ہیں اور کیونکر نہ ہوں وہ خو د تو وزیر اعلیٰ بننے سے رہے لہٰذا ایک نسبتا ً نا تجربہ کار شخص جس کی اپنی سیا سی بنیا د کمزور ہو چودھریوں کوسوٹ کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جب جنرل پرویز مشرف ہمایوں اختر خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے تو چودھری شجاعت حسین نے اس تجویز کی سرتوڑ مخالفت کی تھی اور ان کی جگہ ظفر اللہ جمالی کو قبول کر لیا تھا کیونکہ جمالی صاحب کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا گویا کہ حکومت کے حوالے سے پنجاب حکومت میں ان کے سوا کو ئی دوسرا پاور سنٹر نہ ہو۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کی یہی کمزوری ہے کہ پنجاب اسمبلی میں بہت کم عددی اکثریت ہے جس وجہ سے یہاں مخلوط حکومت ہے۔ دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناتے سے یہاں پر واضح اکثریت حاصل کئے بغیر وفاق میںحکومت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ عثمان بزدار کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں قریبا ً ایک دہائی تک شہبازشریف وزیر اعلیٰ پنجاب رہے ہیں۔ اس سے پہلے چودھری پرویز الٰہی کا طوطی بولتا تھا۔شہباز شر یف ایک محنتی وزیر اعلیٰ تھے جو خود کام کر نا اور دوسر وںسے کام لینا جا نتے بھی تھے۔ ان کے پیشر و پرویز الٰہی کی بھی ایڈمنسٹریشن چلانے کے حوالے سے اچھی شہرت تھی۔لیکن ایک برس گزرنے کے باوجود بدقسمتی سے بزدار صاحب ہنوز اپنا سکہ نہیں جما سکے، اب تک وہ کو ئی فعال ٹیم بھی تشکیل نہیں دے سکے۔ بیوروکریسی اور پولیس میں اکھاڑ پچھاڑ روز کا معمول بن چکی ہے۔ گورننس کا حال اتنا پتلا ہے کہ پنجاب میں ایک برس کے دوران چار بارآئی جی تبدیل کیے جا چکے ہیں، اس کے باوجود پو لیس کی ناقص کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ جہاں تک وزیر اعلیٰ کی ترجمانی کا تعلق ہے۔ اس شعبے میں بھی کئی تجربے کئے جا چکے ہیں، سب سے پہلے تو فیاض الحسن چوہان کو وزارت اطلاعات اور وزیر اعلیٰ کی تر جمانی کا فریضہ سونپا گیا، بعدازاں پیپلز پارٹی سے آئے ہوئے صمصام بخاری کو صوبائی وزیر اطلاعات بنایا اور پھرہٹا یا دیا گیا، آج کل یہ قلمدان ایڈیشنل چا رج کے طور پرمیاں اسلم اقبال کے پاس ہے۔فیا ض الحسن چوہان کوان کے نامناسب ریمارکس پر ہٹایا گیا تھا، اب بطور ترجمان ان کی بحالی ہو گئی ہے۔ جہاں تک شہباز گل کا تعلق ہے، ان کی پنجاب کے ایک سا بق ڈی جی پی آرسے اس حد تک تلخ کلامی ہوئی کہ نوبت قریباًہاتھا پائی تک جا پہنچی تھی۔ بزدار صاحب کے پاس اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وقت بہت کم ہے کیونکہ وزیر اعظم بھی ان کا کلّہ مضبوط ہو نے کے باوجود چاہیں گے کہ صو بے میں گورننس بہتر ہو ورنہ وزیر اعظم کو پنجاب میں یقیناً ایک ایسی شخصیت کی تلاش رہے گی جوان کی پا رٹی اورحلیف جماعتوں کے لیے بھی قابل قبول ہو۔