کئی بار ملتوی کرنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پیسی) کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ کانفرنس کا مقصد دہشت گردی اور معاشی بحران سمیت ملک کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال اور اتفاق رائے پیدا کرنا تھا۔ شائد حکومت کو احساس ہوا ہے کہ ا ے پی سی قومی امور کے بجائے نئے انتخابات کا بکھیڑا اٹھا دے۔ اس کی دلچسپی اس لئے بھی کم ہو گئی ہے کہ پارلیمنٹ میں منی بجٹ (ضمنی مالیاتی بل 2023) پیش کر دیا گیا ہے، جس کی منظوری جلد ہی دیدی جائے گی۔ دوسری طرف سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ اس کانفرنس کے ملتوی ہونے سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں 'قومی اتفاق رائے' کی اصطلاح کو محض بیان بازی کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس عمل پر حقیقی طور پر یقین نہیں رکھتا۔اداروں کے اندر بڑھتے ہوئے تنائو اور سیاسی بحران نے ملک کو مکمل افراتفری کی طرف دھکیل دیا ہے۔ قومی بساط پر ایک آپادھاپی مچی ہے۔ صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ایک حکمران جماعت کی چیف آرگنائزر حکومت کے فیصلوں سے خود کو بری الذمہ قرار دی رہی ہیں۔ اداروں کو ان کی حدود میں رکھنے اورکلیدی قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان وسیع البنیاد مذاکرات شروع کرنے کا اس سے بہتر وقت کبھی نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ قومی امور پر مکالمے کے لئے بہترین جگہ پارلیمنٹ ہے لیکن سیاسی جماعتیں خود پارلیمنٹ پر یقین نہیں رکھتیں اور ہمیشہ پارلیمنٹ سے باہر اور آئین سے ماورا ڈیل کرنا آسان سمجھتی ہیں۔ جب بلاول بھٹو زرداری پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ضابطہ اخلاق کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تو وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان کی اپنی جماعت کا اسپیکر ایوان کوکیسے چلا رہاہے۔ سیاسی ڈیل اور مکالمے کو الگ کر کے دیکھنا چاہیے۔ مکالمہ ایک تہذیبی قدر ہے، اور ڈیل لین دین کا طریقہ ہے، لیکن دونوں ایک ساتھ چل سکتے ہیں اگر مقصد تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان سماجی معاہدے پر نظر ثانی کرنی ہو یا اسے مضبوط کرنا ہو۔ عمران خاں ایسے کسی بھی عمل کا حصہ بننے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کی پارٹی آئندہ انتخابات میں کامیاب ہو گی، کیونکہ وہ مقبول ہیں اورانہوں نے مرکزی دھارے کی تین جماعتوں کے خلاف کامیابی سے اپنا ماسٹر بیانیہ تیار کر لیا ہے۔ شایدحکمران اتحاد میں سے کسی نے بھی ان سے مذاکرات کے لیے براہ راست رابطہ نہیں کیا اور خان اسے مخالفین کی بڑی کمزوری کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے اور وہ انکے ساتھ براہ راست تعامل چاہتے ہیں۔ شاید سیاسی جماعتوں کے اندر براہ راست رابطے اعتماد کی کمی کوپورا کر سکتے ہیں اور بات چیت کا دروازہ کھول سکتے ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیںباہمی مکالمے پر یقین رکھتی ہوں۔ اب تو پاکستان میں نوابزادہ نصراللہ خان جیسی ثالثی شخصیت نہیں رہی ہے جو ثالثی کر کے سیاسی مخالفین کو میز پر لا سکے۔ وہ لوگ جو پارٹیوں میں سائیڈ لائن ہیں یا زیادہ حساس ہیں انہوں نے 'ری امیجنگ پاکستان' مہم کا آغاز کیا ہے۔ اگر وہ قومی مکالمہ شروع کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں لگا دیتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ کم از کم کچھ سمجھدار آوازیں ملک کے سیاسی منظر نامے پر ہلچل مچا سکتی تھیں۔ تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں حکمران اتحاد کا حصہ ہیں، سوائے پی ٹی آئی، جماعت اسلامی (جے آئی) اور چند دیگر چھوٹی جماعتوں کے۔ پی ٹی آئی اور جے آئی کے بغیر اے پی سی حکمران جماعتوں کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس کی طرح نظر آئے گی۔ اگر حکومت کثیر الجماعتی اجلاس بلانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے پی ٹی آئی شمولیت کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس کے برعکس، اگر پی ٹی آئی واقعی اسٹیبلشمنٹ سے خائف ہے تو وہ خود اس طرح کی اے پی سی بلا سکتی ہے۔ قومی نوعیت کے سیاسی مکالمے کا ایجنڈا ترتیب دینا بہت اہم ہو تا ہے کیونکہ یہ نتائج کا تعین کرتا ہے، اور اسکا فیصلہ صرف میزبانوں پر چھوڑنے کے بجائے اجتماعی طور پر کیا جانا چاہیے۔ اگر تمام سیاسی جماعتیںملک کو درپیش اہم چیلنجز کو کم کرنے کے لیے اپنے خیالات اور سفارشات اے پی سی سے پہلے تحریری طورپر پیش کریں تو مکالمے کو درست سمت مل سکتی ہے۔ اے پی سی معیشت، سلامتی اور پارلیمنٹ کی بالادستی سے متعلق نظریات پر بحث کے لیے ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے سکتی ہے اور ان خیالات کو حتمی شکل دے سکتی ہے، جنہیں پارٹی سربراہان کے اجلاس میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایسی اے پی سی بلانا کوئی خیالی پلائو پکانے سے کم نہیں لگتا مگر ماضی میں سیاسی جماعتیں ایسا کرچکی ہیں۔ آخری بار 18ویں آئینی ترمیم کی تیاری کے دوران اتفاق رائے کیا گیا تھا۔ ابھی تو قومی مکالمے کاانعقاد ہوائی بات لگتی ہے لیکن اگر ایسا ہو گیا تو اے پی سی کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک فعال اور تخلیقی بیوروکریسی کی ضرورت ہوگی، جس کا ملک میں کوئی وجود نہیں۔ پاکستان میںبیوروکریسی خرابی کا شکار ہے، اور سیاسی جماعتوں کو یہ کام بھی خود کرنا ہو گا،اور سفارشات کو ایک قابل عمل دستاویز میں ڈھالنا ہوگا، اصل چیلنج اتفاق رائے ہے۔ ایک کمزور حکومت ایک شاندار خیال کو خراب کر سکتی ہے، لیکن ایک مضبوط حکومت بدترین پالیسیوں کو نافذ کر سکتی ہے۔ سیاسی اتفاق رائے حکومت اور بیوروکریسی کے لیے کام کو آسان بنا دیتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے متفقہ فیصلوں کو تبدیل کرنے سے گریزاں رہتے ہیں، جیسا کہ 18ویں ترمیم کے معاملے میں ہوا اور آئینی ترمیم کو سبوتاژ کرنے کی بہت کوششیں کی گئی ہیں لیکن اب تک وہ ناکام ہوئے ہیں۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ صوبائی حکومتیں اٹھارویں ترمیم سی فائدہ نہیں اٹھا سکیں اور نہ ہی اس کے ثمرات نچلی سطح پر منتقل کرسکی ہیں۔ مکالمے کی سفارشات پر عمل درآمد کی حکمت عملی پارٹیوں کے اندر اور دوسرے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی والی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر سیاسی جماعتیں آئینی حدود میں رہیں تو کسی دوسرے ادارے کو ان کو منسوخ کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔ سیاسی اتفاق رائے کی طاقت کا کوئی مماثلت نہیں ہے اور یہ حیرت انگیز ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں یہ کمال کرنے کو تیار ہیں؟ چند مستثنیات کو چھوڑ کر، پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے کو جگہ دینے کی روایت نہیںہے۔ اور نہ ہی ان کے ڈھانچے میں جمہوریت ہے۔ ملک میں ایسے کمزور سیاسی ڈھانچے سے حیران کن نتائج کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ مکالمہ تب ہی آگے بڑھتا ہے جب دلیل میں مضبوطی ہو اور یہ صرف اندرونی طاقت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو قومی اہمیت کے مسائل پر بات چیت کے لیے قوت حاصل کرنے کے لیے پہلے اپنی صفوںمیں مکالمے کی روایت کو فروغ دینا ہوگا اور اختلاف رائے کو برداشت کرنا مکالمے کی پہلی بنیادی شرط ہے۔