جب کوئی کسی کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو پہلے اس کے بارے میں سوچ کر سیکم یا پلان بناتا ہے اور بعد میں اس پر عمل کرتا ہے پہلے سوچنا یا پلان بنانا اور پھر عمل کرنا مداخلت ہے لہذا سازش اور مداخلت بیک وقت لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ مجھے اپنے استاد محترم پروفیسر محمد رفیق بھٹی کا ایک شعر یاد آیا : میرے کھوجی کا اندازہ نہائت معتبر نکلا کْھرا چوری کا جاکے چوہدری صاحب کے گھر نکلا قومی سلامتی کمیٹی کے اس بیانیے سے تین سچائیاں سامنے آتی ہیں : 1۔عمران خان حکومت کو گرانے کے لئے خط لکھا گیا اور خط اپنے سفیر نے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سارے متعلقہ اداروں یا افراد کو ارسال کیا ۔ 2۔مداخلت ہوئی ہے ۔ 3۔قومی سلامتی کمیٹی دوسری بار اس کی تصدیق کرچکی ہے ۔ لیکن بلّی تھیلے سے باہر نہیں آئی بلکہ تھیلا ہی بلّی کو چھوڑ گیا اب اس سارے گورکھ دھندے سے باہر نکلنے اور نیک نامی حاصل کرنے کا ایک ہی واحد راستہ ہے کہ عمران خان کے معصومانہ مطالبے پر جتنا جلدی ہوسکے الیکشن کروا کر اس کمبل سے جان چھڑوالی جائے بقول شاعر : جان بچی تو لاکھوں پائے لوٹ کے بدو گھر کو آئے ماضی قریب کی بات ہے ستمبر 2019ء کو میری ذاتی طور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکہ جاتے ہوئے لندن لوٹن کے ایک تْرکش ریسٹورنٹ میں اچانک ملاقات ہوئی تھی وہ امریکہ جاتے ہوئے لندن میں رْکے تھے میں نے موقع کی مناسبت سے ان سے چند اپنی گزارشات تحریری طور پر بھی اور پھر زبانی بھی نفس نفیس ان کے گوش گزار کی تھیں میں نے مودبانہ گزارش کی تھی کہ جن لوگوں پر کرپشن کے کیسزز ہیں چیف صاحب! اگر وہ قصور وار ہیں تو ان کو منطقی انجام تک پہنچانے میں قومی کردار ادا کریں۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ میں خود ایک فوجی کا بیٹا ہوں ہم جیسے پڑھے لکھے عام محب وطن پاکستانی ملک چھوڑنے پر اس لئے مجبور ہوئے ہیں کہ ہمارے ملک کے وسائل کو تباہ کیا گیا۔ بے دردی سے لوٹا گیا ہے اور عام آدمی کے لئے روزگار اور انصاف نہیں ۔آج ہم بیرون ملک میں رہ کر ملک کی خدمت کرتے ہیں۔ ہمارے دل ملک کی بہتری کے لئے تڑپتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کرے اور ہماری آئندہ نسلیں اسی طرح ذلیل نہ ہوں میں نے کہا تھا باجوہ صاحب آپ استقامت دکھانا آپ کو میری عمر لگ جائے یہ جملہ جب بیگم باجوہ صاحبہ نے سنا تو انہوں نے مجھے منع کیا تھا کہ ایسا نہ کہیں میں نے اپنے ایک صحافی دوست اسرار خان جو لوٹن ایشین پوسٹ کے ایڈیٹر ہیں ان کا بھی تعارف کروایا تھا کہ انہوں نے بھی ڈگری کی ہوئی ہے لیکن ہم اپنے ملک سے باہر محنت مزدوری کرتے ہیں ہمیں تو اپنے ملک میں ہونا چاہیئے تاکہ ہم اپنے ملک کی خدمت کرسکیں ہمارا ملک اشرافیہ کے سپرد ہے جو ہمارے ہی وسائل لوٹ مار کرکے نسل در نسل امیر تر ہورہے ہیں۔ چیف صاحب نے وعدہ کیا تھا ان شاء اللہ پاکستان کے لئے بہتر ہوگا آپ فکر نہ کریں میں نے ایسا اس لئے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں ہماری افواج کا سول حکومت کو چلانے میں بڑا کردار رہا ہے۔ سچ یا غلط یہ بات زبان زد و عام ہے چونکہ ہمارے ہاں جمہوریت اور جمہور براہ نام ہے اور پھر سیاست دان بھی ناعاقبت اندیش ہیں جو ہر دفعہ چور دروازے سے آتے ہیں اور مار کھاتے ہیں اب جب کہ 2022 میں ہم دیکھتے ہیں کہ شرجیل میمن جیسا وزیر سندھ بن گیا نہ لندن میں اس کے لئے شراب نوشی رکاوٹ بنا نہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس کے ہسپتال میں شراب کی بوتلیں پکڑتے ہیں نہ کرپشن کیسزز اس کے لئے مسئلہ ہے۔ کیا سوچ رہے ہونگے ہمارے کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز جب اس کو اب سلیوٹ کریں گے۔ میمو گیٹ سکینڈل والے اور ڈان لیکس والے جنہوں نے اس پاک فوج کو دنیا میں بدنام کروانے کے لئے ہر پلیٹ فارم استعمال کیا تھا ہر طرح کی ہرزہ سرائی کی ان میں سے کوئی وزیر دفاع بن گیا۔ جس نے نواز شریف کے دور میں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ ہماری فوج نے آج تک کیا کاکردگی دکھائی ہے 1947 اور 1965 میں ہماری فوج کو شکست ہوئی 1971 میں ان کی وجہ سے ملک ٹوٹا 1998 میں یہ لاشیں چھوڑ کر کارگل سے واپس آ گئے تھے اب وہی خواجہ آصف وزیر دفاع ہیں اور ان کے سرپرست اعلیٰ شہبازشریف نوازشریف ہیں نوازشریف کے بیانات فوج کے بارے میں کیا رہے ہیں مجھے کیوں نکالا سے لے کر بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور اجمل قصاب کے بارے میں یہ کیا کچھ کہتے رہے ہیں آج 36 رکنی کابینہ میں 24 کرپشن کے کیسزز میں ضمانت پر رہا ہیں ۔ آج کے حکمران بالکل پاک صاف ہیں تو پھر ان ہی اداروں ان ہی عدالتوں نے انہی قوانین کے تحت انہیں نااہل کیوں قرار دیا اور سزائیں سنائیں۔ آج 90 لاکھ سے سے زائد تارکین وطنوں میں شدید غم و غصہ اس لئے پایا جاتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ناانصافی ہوئی ہے یہ اورسیزز پاکستانی پاکستان کے بلامعاوضہ سفیر اور سپاہی ہیں۔ جو ہر محاذ پر ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کے عظیم مفادات میں ہمیشہ دفاع کرتے ہیں۔ آج اپنے ہی سفارت خانوں کے سامنے مظاہرے کررہے ہیں یہ آگ کیوں اور کس نے لگائی ہے۔ امریکہ بھارت سمیت پاکستان کے دشمن یہی تو چاہتے تھے کہ پاکستان کی قوم کو تقسیم کیا جائے آج فیملیز آپس میں لڑائیاں کررہی ہیں دوست رشتہ داروں میں بری طرح تقسیم ہے۔ خدا کے لئے اس ملک کو سنبھالیں اس قوم کو دوبارہ متحد کریں یہ قوم منتشر اور مشتعل ہے اور تاریخ میں کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف صف آراء ہوجائیں آج میرے ملک کے فیصلے لندن میں ہورہے ہیں اور پھر وزرت خارجہ کے امور امریکہ میں بیٹھے ہوئے حسین حقانی چلا رہے ہیں پھر باقی رہ کیا گیا ہے کہ بحث کرنے کے لئے کہ سازش ہے یا مداخلت! پھر اب اس ملک کے آئین اور قانون و دستور کی کتابوں سے غدار کا لفظ حزف کردیا جائے تو بہتر ہے سابق ڈی جی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس موجود ہے جس میں انہوں نے محسن داوڑ اور دیگر پر باہر سے فنڈز وصول کرنے کی تصدیق کی تھی اب اختر مینکل علی وزیر اور داوڑ جیسے لوگ ہمارے وزیر ہونگے اللہ ہی حافظ ہے۔