دو برس قبل کراچی آنا ہوا تو کلفٹن میں واقع گرافک ڈیزائننگ کے ادارے میں سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے ایک ماہر ٹکر گئے، پوچھنے لگے "آپ فیس بک استعمال کرتے ہیں ؟" عرض کیا"جی کرتا ہوں !" فرمانے لگے"پوسٹیں لکھتے ہیں ؟" عرض کیا"تھوڑی بہت لکھ لیتا ہوں" بولے"کریکٹ می اف آئی رونگ کہ لائیکس صرف تصاویر پر آتے ہوں گے، لکھی ہوئی پوسٹ پر دو چار لائیکس ہی آتے ہوں گے ؟" عرض کیا"دو چار تو نہیں تھوڑے زیادہ ہی آجاتے ہیں لیکن تصاویر سے واقعی کم ہوتے ہیں" فرمانے لگے" کریکٹ می اِف آئی رونگ، لکھی پوسٹ پر دس بیس لائیکس آجاتے ہوں گے ؟ میں آپ کو جانا مانا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بنا سکتا ہوں، آپ کی بہت اچھی پوسٹ پر سو لائیکس بھی آجایا کریں گے" عرض کیا"نہیں ! دس بیس سے تھوڑے زیادہ آجاتے ہیں"زچ ہوتے ہوئے بولے"تو تیس چالیس ہی آجاتے ہوں گے !"عرض کیا"نہیں ! تیس چالیس سے بھی تھوڑے زیادہ آجاتے ہیں""سکسٹی ؟""تھوڑے زیادہ !""آپ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں کیا ؟""قطعا نہیں !"لمبی چھلانگ مار کر بولے"اچھا ! کبھی ڈیڑھ سو لائیکس لئے ؟" عرض کیا"اتنے تو 30 منٹ میں لے لیتا ہوں !" زوردار قہقہہ مار کر بولے "اچھا ! تو اتنی دیر سے آپ مجھے ماموں بنائے جا رہے ہیں" جوابا میں بھی ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیرے سے ہنس دیا، فرمانے لگے "بلیو می یو کین گیٹ ہنڈریڈ لائیکس، اِف یو بی کم سوشل میڈیا ایکٹوسٹ!" بابو کو فل انگریزی میں کنورٹ ہوتے دیکھا تو جیب سے سیل فون نکال کر اپنا فیس بک اکاؤنٹ ان کے سامنے کردیا. جوں جوں سکرول ڈاؤن کرتے گئے رنگ اڑتا گیا اور بالآخر بڑے کرب سے بولے "اتنے لائیکس آپ کو کیوں مل جاتے ہیں، آپ سلیبریٹی تو نہیں ؟"عرض کیا"سلیبریٹیز تو ادھ ننگے پھرتے ہیں، میں آپ کو ننگا دکھ رہا ہوں کیا ؟" "اتنے لائیکس صرف پیجز پر آتے ہیں، آپ کو اکاؤنٹ پر کیسے مل جاتے ہیں ؟"عرض کیا’’مجھے اس لئے مل جاتے ہیں کہ میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نہیں ہوں‘‘چلئے آپ کو بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہوتا کیا ہے ؟ اور آپ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ کی فیس بک پوسٹ پر اوسطا 30 سے 60 کے مابین لائیکس آتے ہوں۔ آپ کے خیال میں پاکستان میں آپ کے علاوہ کوئی بھی بہتر انسان نہیں۔ اپنے وطن کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہوں جو خرانٹ ساس بہو کے ساتھ کرتی ہے۔ آپ کے نزدیک ڈاکٹر پرویز ہود بائی اور ان جیسے دیگر سائنٹسٹ صرف اس لئے کوئی چیز ایجاد نہیں کر سکے کہ مولوی انہیں گدگدی کرکے تنگ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کو آپ تھرڈ کلاس مفکر و شاعر سمجھتے ہوں۔ فنون لطیفہ میں عریانی کو عظمت کا اکلوتا معیار سمجھتے ہوں۔ حب الوطنی کا درس دینے والوں کو اسٹیبلشمنٹ کا بندہ تصور کرتے ہوں۔ ہوں تو آپ ملحد لیکن بات بات پر "او مائی گاڈ !" پکارتے ہوں۔ آپ خود تو اسلام مخالف ہوں لیکن قادیانیوں کو مسلمان ثابت کرنے کی جد و جہد کے ذریعے خود کو ان کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش فرماتے ہوں۔ کچھ غلط ہوجانے پر خدا کے بجائے پاخانے (اوہ شٹ) کو یاد کرتے ہوں۔ مسلمانوں کی عید تو سو کر گزار دیتے ہوں لیکن کرسمس اور ہولی کی تقریبات میں پابندی سے شرکت کرتے ہوں۔ نظریات سیکولر رکھتے ہوں مگر سیاسی ریلی میں بازو پر امام ضامن باندھ کر شریک ہوتے ہوں۔ عام حالات میں مولوی کی سرگرمی پر معترض ہوں اور کسی خونریزی کے موقع پر یہ موقف اختیار کر لیتے ہوں کہ ’’علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے‘‘پاکستان کی افغان معاملات میں مداخلت کو عالمی قوانین کے خلاف سمجھتے ہوں، اور پاکستان میں امریکی مداخلت کی حمایت کرتے ہوں. غرضیکہ منافقت کی تمام علامات آپ میں بھرپور پائی جاتی ہوں تو سمجھ لیجئے کہ آپ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں ! کسی آٹو مکینک سے ڈاکٹر نے کہا "اگر تم لکھ پڑھ لیتے تو یہ کام نہ کرنا پڑتا، میری طرح صاف ستھری زندگی گزارتے" ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مکینک یہ سوچتا کہ جس طرح میرے ہاتھ ورکشاپ پر گریس اور آئل میں لتھڑے ہوتے ہیں ویسے ہی ڈاکٹر کے ہاتھ بھی اپنے مطب میں مریض کے خون اور پیپ میں لتھڑے ہوتے ہیں،مگر مکینک کمبخت فیس بک پر پارٹ ٹائم دانشور بھی لگا ہوا تھا سو بات دل پر لے گیا اور نکل لیا ڈاکٹر بننے. وہ جی جان سے محنت کرتا ہوا ایک دن ڈاکٹر بن ہی گیا. شہر کے پوش علاقے میں مطب کھول کر بیٹھا تو مطب میں بھی اس کے خمیر میں رچا بسا آٹو مکینک ہی حاوی رہا. نتیجہ یہ کہ مریضوں سے یوں ہمکلام ہوتا۔ آنکھ کے مریض سے: ’’ہم ہیڈلائٹس کا کام نہیں کرتے، آپ کسی الیکٹریشن سے رجوع کیجئے !‘‘ توند والے سے:’’کار کو ٹرک کیوں بنا رکھا ہے ؟‘‘ جھریوں کے مریض سے: ’’کسی اچھے ماہر سے ونڈ سکرین پالش کروا لیجئے !‘‘ گیسٹرو کے مریض سے: ’’اچھا تو یوں کہئیے ناں کہ گاڑی دھواں مار رہی ہے !‘‘ پلاسٹک سرجری کے خواہشمند سے:’’ہم ڈیکوریشن کا کام نہیں کرتے !‘‘ ناک، کان اور حلق کے مریض سے: ’’آپ کو ریڈی ایٹر والے کے پاس جانا ہوگا !‘‘ نتیجہ یہ کہ مکینک نما ڈاکٹر کا مطب کچھ ہی دن میں سائیں ! سائیں ! کرنے لگا. معاشی مجبوریوں نے پھر سے ورکشاپ ہی کھولنے پر مجبور کیا تو وہاں الگ تماشا لگ گیا، ریڈی ایٹر لیکج پر فرماتے ’’آپ کو تو نزلہ ہے !‘‘ آئل لیکج پر پوچھتے ’’آپ نے رات کو کیا کھایا تھا ؟‘‘ انجن گرم ہونے پر دریافت فرماتے ’’آپ سلاجیت تو استعمال نہیں کر رہے ؟‘‘ یوں چند ہی دن میں ورکشاپ کی بھی فاتحہ ہو گئی. کچھ ایسا ہی معاملہ ان فیس بکی دانشوروں کا بھی ہوتا نظر آتا ہے جو اپنی ورکشاپ چھوڑ کر صاف ستھری زندگی کے چکر میں دانشور بننے نکلے ہیں، مذکورہ حرکتیں تو وہ شروع کر ہی چکے بس جنازہ نکلنے کا مرحلہ باقی ہے!