بھارتی مگ 21 طیارہ جسے پاکستان ایئر فورس نے ’ڈاگ فائٹ‘ کے ذریعے آزادکشمیر میں گرالیا تھا کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی جمعہ کے روز واپسی پر بھی بھارتی میڈیا نے خوب ڈرامہ رچایا۔ پاکستان نے حسب وعدہ بھارتی پائلٹ کو واہگہ کے راستے واپس کردیا لیکن اس معاملے میں بھی خاصے کیڑے نکالے گئے کہ اس کی بھارتی حکام کو حوالگی میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے، نیزیہ کہ جب پائلٹ کو واپس کیا جا رہا تھا تو اس کے ہمراہ بھارتی ملٹری اتاشی کو جان بوجھ کر انتظار کرایا گیا حالانکہ پاکستان نے ابھی نندن کے ساتھ ایک قیدی کے بجائے مہمان کے طور پر سلوک کیا اور ابھی نندن نے اپنے ویڈیو بیان میں اس کا اعتراف بھی کیا اور بھارتی میڈیا کی بے خبری اور انتہا پسندی پر شدید نکتہ چینی کی۔ لیکن بھارتی تجزیہ کار جن میں زیادہ تر فوج اور فضائیہ کے ریٹائرڈ افسر تھے پاکستان کو بے نقط گالیاں دیتے جا رہے تھے۔ یہ درفنطنی بھی چھوڑی گئی کہ پائلٹ کو جان بوجھ کر پاکستانی وقت کے مطابق رات نو بجے بھارت کے حوالے کیا گیا تاکہ اس کی پرائم ٹائم ٹی وی پر زیادہ سے زیادہ پبلسٹی ہو جبکہ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ وہ چار بجے بین الاقوامی بارڈر پر ہونے والی پریڈ اور وہاں ہجوم کے منتشر ہونے کے بعد پائلٹ کو بھارت کے حوالے کرنا چاہتا تھا اور ویسے بھی اگر اس واقعہ کی زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کی بھی گئی تو یہ کوئی جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی نہیں تھی۔ آج کل کے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے دور میں جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ قلم اور الیکٹرانک میڈیا کی تلواروں سے بھی لڑی جاتی ہیں۔ آخر قریباً چار سو سے زیادہ بھارتی نیوز چینلز رات دن پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے رہتے ہیں اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ منہ سے جھاگ نکالنے والے بھارتی تجزیہ کاروں کو یقینا اب یہ احساس تو ہو گیا ہو گا کہ پاکستان کوئی ترنوالہ نہیں ہے۔ دراصل بھارت اور پاکستان کے درمیان مخاصمانہ تعلقات کا ایک فال آؤٹ یہ بھی ہے کہ بھارت کے ریاستی ادارے اور میڈیا پاکستان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنی نفرت اور جہالت کی آگ میں جلتے ہوئے بعض بنیادی حقائق کو نظراندازکر جاتے ہیں یا ان سے قطعاً بے خبر ہیں۔ وہاں یہ تاثر ہے کہ پاکستان میں کوئی جمہوریت نہیں بلکہ یہاں فوج راج کرتی ہے۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ یہاں ایک منتخب وزیراعظم ہیں، فعال پارلیمنٹ ہے، بہت بڑی اپوزیشن ہے، آزاد میڈیا بعض رکاوٹوں کے باوجود آزادی سے اپنی حکومت اور اپوزیشن کے بھی لتے لیتا ہے۔ یہاں پر بری بھلی سول سوسائٹی بھی موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں پاکستان میں کئی مرتبہ فوجی حکومتوں کا راج رہا ہے اور اب بھی جمہوریت کے بعض مسائل ہیں لیکن یہ تصور کر لینا کہ یہاں پر فوج اور ’دہشت گرد‘ ایجنڈا کنٹرول کرتے ہیں، مبنی برحقیقت نہیں ہے۔ موجودہ بحران کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی لیڈرشپ کا سکہ جما لیا ہے۔ دوستوں اور دشمنوں دونوں نے اس بحران کو انتہائی مہارت سے ہینڈل کرنے کا اعتراف کیا ہے حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے خطاب میں بھی بلاواسطہ طور پر اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن بالخصوص پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی تقریروں سے یہ لگ رہا تھا کہ وہ اس نیم جنگی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنی لائن سیدھی کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ اعتراض بالکل بھونڈا ہے کہ پائلٹ کو جلد بازی میں واپس کیا گیا۔ کیا ہم نے اس بھارتی پائلٹ کا اچار ڈالنا تھا بالآخر اسے واپس کرنا ہی پڑنا تھا، اگر اس کی واپسی کو دنیا کی طرف سے پاکستان کی امن اور صلح پسندی کانام دیا گیا ہے تو اس میںحرج ہی کیا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار زید حامد کا کہنا ہے کہ پائلٹ کو رہا کرنے سے پہلے ہمیں آسیہ اندرابی کے علاوہ پاکستانی قیدیوں کی رہائی اور واپسی کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ گویا کہ ایک جنگی قیدی کو بارگیننگ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر پاکستان ایسا کرتا تو اسے بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں انتہائی منفی رائے عامہ کا سامنا کرنا پڑتا۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اگر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نہیں تو کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کی نمائندگی ہونی چاہیے تھی۔ اسلامی کانفرنس نے جس انداز سے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بلا کر جپھی ڈالی وہ اپنی جگہ بہت افسوسناک ہے لیکن ہمارے بائیکاٹ کے نتیجے میں سشما سوراج کو کھلا میدان مل گیا اور انھوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہوئے جو زہر اگلا اس کا کوئی جواب دینے والا نہیں تھا۔ یقینا یہ ہماری وزارت خارجہ کے کار پردازوں کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ تاہم اسلامی وزرائے خارجہ نے مسئلہ کشمیر پر قرارداد تو منظور کی لیکن مشترکہ اعلامیہ میں منافقانہ طور پر کشمیر کا ذکر گول تھا۔ ہمارے وزیر خارجہ کانفرنس کی قرارداد پر پھولے نہیں سما رہے۔ ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے مستقل رکن پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے ایک قرار داد لا رہے ہیں جس کا مقصد جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر پابندی لگانا ہے۔ ماضی میں چین اس قسم کی قرارداد وں کو ویٹو کر تارہا ہے لیکن بدلے ہوئے حالات میں شاید اب وہ ایسا نہ کر ے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سی این این اے کی سینئر اینکر Christiane Amanpour کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ مسعود اظہر اتنے بیمار ہیں کہ آپ اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ بھارت کے پاس ان کے خلاف ثبوت ہیں تو فراہم کر ے۔ شاید قریشی صاحب کو اندازہ نہیں کہ بات اس سے آگے نکل چکی ہے۔ اگر چہ پلوامہ کا خود کش حملہ آور مقامی کشمیری نوجوان تھا جو بھارتی سکیورٹی فورسز کی بربریت کا شکار رہا اور بارودی مواد بھی مقبوضہ کشمیر میں ہی تیار کیا گیا تھالیکن اس واقعے کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کر لی۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں ہم ایسے لوگوں کوپالیں گے اور نہ ہی دوسروں کو اجازت دیں گے کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو استعمال کریں، قریشی صا حب کو اپنے وزیراعظم کے اس درست موقف کی روشنی میں یہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی۔ بہتر ہو گا کہ پاکستان سکیورٹی کونسل کا انتظار کیے بغیر خود ہی مسعود اظہر پر پابندی عائد کر دے تاکہ بھارت پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا نہ کر سکے کہ ہم ایسے لوگوں کو پال رہے ہیںجو ویسے بھی خلاف واقعہ ہے۔ امریکہ، چین، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں لیکن نریندر مودی نے اگلے ماہ ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات ہر قیمت پر جیتنے کے لیے اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مسلم کش پالیسیوں کی بنا پر کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں کو بتانا چاہیے کہ یہ مسئلہ اس لیے نہیں کہ پاکستان گھس بیٹھئے بھیج کر ’’دہشت گردی‘‘ کر رہا ہے بلکہ حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جس کے لیے بھارت کوکشمیری لیڈر شپ کو انگیج کرنے کے علاوہ پاکستان سے بھی بات کرنا پڑے گی، لیکن اس کی بہت کم امید ہے۔ دنیامیں اس قسم کی آزادی کی تحریکوں کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاتا ہے لیکن اس معاملے میں کوئی بھارت پردباؤ نہیں ڈالتا حتیٰ کہ اسلامی کانفرنس جس کا پاکستان نہ صرف رکن ہے بلکہ ماضی میں مدارالمہام بھی رہاہے اب بھارتی لیڈر شپ جس کے ہاتھ کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں کو جی آیاں نوں کہہ رہی ہے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں تو اورکیا ہے ؟۔