دنیائے علم و حکمت کے متفق علیہ دانش مند اور ایک عالَم کو سیراب و فیض یاب کرنے والے عالِم جناب سعدی شیرازی کی شہرہ آفاق تصنیف ’’گلستان‘‘ کے باب دوم : ’درویشوں کا اخلاق‘ کی چوتھی حکایت: ’ اہلِ صفا کی دوستی ‘ کے ضمن میںمرقوم ہے: ’مَیں نے سنا ہے کہ راہِ خدا کے جواں مردوں نے تو کبھی دشمنوں کا دل بھی نہیں دُکھایا۔ تجھے بھلا یہ مقام و مرتبہ کب میسر آئے گا کہ تیرا تو دوستوں سے جھگڑا اور مخالفت ہے۔‘‘ شیخ سعدی شیرازی سے میری پہلی ملاقات بلکہ دوستی، بی اے کے زمانے میں ’گلستان‘ ہی کے مرغزاروں میں ہوئی تھی۔شستگی، شگفتگی، سادگی، دل بستگی، وارفتگی جیسے الفاظ اور ان کا مفہوم، اسی زمانے میں میرے دل میں ترازو ہوا تھا اور آج تک ہے۔ ان تحریروں کی سب سے خاص بات مصنف کا خلوص، ذاتی تجربات کی مہک، کہانی کا عنصر، مثبت نتائج کی فوری نشان دہی اور بڑی سے بڑی دانش کو بغیر کسی پیچیدہ فلسفے اور نفسیاتی الجھاؤ کے بیان کرنے کا فن تھا، بلکہ سچ پوچھیں تو مجھے میرزا غالب کے اس شعر کی صحیح معنوں میں تفہیم بھی اسی زمانے میں ہوئی تھی: اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں معروف مزاح گو شاعر جناب انور مسعود نے اسی تاثیر کے پیشِ نظر ادبی علامت نگاروں کو یہ مفید مشورہ دیا تھا کہ: چھوڑ تجرید و علامت کی پہیلی پیارے چھیڑ قصہ کوئی سعدی کی حکایت جیسا جناب حسین احمد شیرازی محض مزاح کے نہیں مزے کے آدمی بھی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر آج تک معترف ہیں کہ انھوں نے جب پاکستان میں ایٹم بم بنانے کا نہایت اہم فریضہ انجام دیا،اس وقت شیرازی صاحب اسلام آباد ایئر پورٹ پر کسٹم آفیسر تھے۔ شیرازی صاحب نے اس نہایت اہم قومی خدمت میں جس ہنرمندی اور جذبے سے ان کی معاونت کی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ شیرازی صاحب سے میرے تعلق کا آغاز ۲۰۱۳ء میں محترم عطاء الحق قاسمی کی وساطت اور مزاح کے پُر فریب حوالے سے ہوا، اور اب یہی عارضی تعلق و تعارف ، نہایت سرعت سے تکلف و تردد کی تمام حدیں، سرحدیں عبور کرتا ہوا سنجیدگی کے دل فریب دائرے میں داخل ہو چکا ہے، بلکہ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ روابط و ضوابط کی اس نگری میں میرا کردار ایک غیر ذمہ دار، لا پرواہ اور کھلنڈرے چھوٹے بھائی کا ہے اور جناب شیرازی صاحب اس تعلق کو ایک مشفق، مخلص،محسن،مربی، ذمہ دار اور ناز بردار بڑے بھائی کی مانند نبھائے چلے جا رہے ہیں۔ ویسے تو ہمارے اس تعلق کا اب تک کا زمانی دورانیہ سات سال بنتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مَیں نے اس محدودمدت سے سات جنم بلکہ جنم جنم کی گہرائی، لذت اور اپنائیت کشید کی ہے۔ اس بات میں مجھے رتی بھر مبالغہ محسوس نہیں ہوتا کہ قادرِ مطلق نے اس کائنات کے لیے معقولیت، ممنونیت، نستعلیقیت اور وضع داری کا جتنا بھی کوٹہ مخصوص کیا تھا، اس کا ایک وافر حصہ کسی نہ کسی طرح شیرازی صاحب کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ یہ بات تو رہی جاتی ہے کہ جناب شیرازی صاحب سے تعلق اور تعارف کی اصل اور معقول وجہ ان کی مایہ ناز تصنیف ’بابو نگر‘ تھی، جو انھوں نے ۲۰۰۶ء میں اپنی بے پناہ ملازمت بلکہ قابلِ رشک افسری(ڈائریکٹر جنرل، فیڈرل بورڈ آف ریونیو) سے سبک دوشی اختیار کر کے کئی برس کی ریاضت، مشاہدے اور مجاہدے کے بل بوتے پر مکمل کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ذہن و دل میں ان کا امیج ایک روایتی بیوروکریٹ کا نہیں بلکہ ایک عظیم ’’بیوروگریٹ‘‘ کا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب اپنے شگفتہ ادبی وقار کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز کی تاریخ کی ایک نہایت اہم سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی دستاویز بھی ہے، جس پہ ابھی تک اس انداز سے توجہ نہیں کی گئی۔ اس میں نہ صرف ہمارے بہت سے دفتری، سیاسی اور حکومتی مسائل کا خاطر خواہ حل موجود ہے بلکہ سابقہ امراض و اغراض کی نشان دہی بھی کامل مہارت کے ساتھ کی گئی ہے۔ اس کتاب کی پذیرائی کی گونج سنگِ میل جیسے اہم اشاعتی ادارے سے متعدد اشاعتوں کی صورت میں پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور کئی ممالک تک سنائی دیتی رہی۔ یہ سیاسی ایوانوں اور دفتری دیوانوںکے درمیان وطنِ عزیز کے ساتھ سال ہا سال سے ہونے والے کھلواڑکی پُر لطف کتھا ہے… معیشت و معاشرت کے جملہ مسائل کی نہایت مستند تشخیص ہے … ابتر و بد تر دفتری زندگی کی عبرت انگیز تصویر کشی ہے، جس کی سطر سطر سے خلوص، دردِ دل اور حب الوطنی کا رس ٹپکتا ہے۔ میرے نزدیک موجودہ معاشرے میں زندہ دل ہونا ، شاید زندہ ہونے سے بھی زیادہ اہم اور ضروری ہے۔مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ ہنسنے سے سفید بال کالے ہو جاتے ہیں لیکن پھر وہ اتنے برے محسوس نہیں ہوتے۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی ہر دور میں دکھوں سے عبارت رہی ہے۔ اسے دارالمحن کے لقب سے پکارا جاتا ہے، لیکن بڑے لوگ ہمیشہ اس کٹھن و دشوار زیست کا کوئی نہ کوئی روشن زاویہ تلاش کر کے اس میں رہنے بسنے بلکہ ہنسنے بسنے کا کوئی معقول جواز پیدا کر لیتے ہیں۔ مولانا حالی کے حیوانِ ظریف یعنی میرزا اسداللہ خاں غالب نے اس زندگی کی اصل حقیقت کی کتنی سچی اور سُچی تصویر کشی کی تھی: سوزشِ باطن کے ہیں احباب منکر ، ورنہ یاں دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے