حال ہی میںسعودی عرب اور کینیڈا کے درمیان اچانک تعلقات میں گرما گرمی پیدا ہوگئی جب کینیڈا کی وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ اپنی ٹوئٹ میں شدید تنقید کی ۔ انہوں نے بالخصوص عرب امریکی نیشنل اور خاتون سماجی رہنما ثمر بداوی کی ایک بار پھر گرفتاری پہ احتجاج کیا اور انہیں فوری طور پہ رہا کرنے کا مطالبہ کیا ساتھ ہی اعلان کیا کہ کینیڈا کی حکومت متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑی ہے۔ سعودی حکومت نے اس پہ فوری ردعمل کا اظہار کیا جو بالکل درست اور جائز ہے۔ کسی دوسرے ملک کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دے۔ سعودی حکومت نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا۔ اس نے فوری طور پہ کینیڈا کے سفیر کو پرسونا نان گراٹا قرار دیتے ہوئے سعودی عرب سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ بات یہیں ختم ہوسکتی تھی اگر کینیڈا کی وزارت خارجہ معافی تلافی کرلیتی لیکن سعودی عرب نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے کینیڈا کی تمام یونیورسٹیوں سے اپنے طلبا بھی واپس بلالیے ہیں۔ المختصر سعودی عرب کوطیش آگیا ہے ۔ کیا بات بس اتنی ہی ہے ؟ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پرجوش اور غیر روایتی فرمانروا ہیں۔ اتنے غیر روایتی کہ ان سے پہلے کبھی کسی سعودی حکمران کو مغرب میں ان کے نام کے مخفف سے اتنے لاڈ سے نہیں پکارا گیا۔وہ خود کو ایم بی ایس کہلوانا پسند کرتے ہیں اور اپنی مملکت پہ اپنے مکمل کنٹرول کے مظاہروں میں ان کو خاص دلچسپی ہے۔ انہوں نے برسراقتدار آتے ہی ، اور یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ وہ کیسے برسراقتدار آئے، کھلے ڈلے بلکہ جارحانہ اقدامات سے اپنے مخالفین کے بے ساختہ کھل جانے والے منہ بند کردئے۔انہوں نے شہزادہ ولید بن طلال سمیت سعودی عرب کے بیسیوں امیر ترین شرفا کو ان ہی کے ملکیتی ہوٹل میں نہ صرف محبوس رکھا بلکہ شنید ہے کہ الٹا لٹکا کے دھونی بھی دی۔ ولید بن طلال پہ تشدد میں امریکی بلیک واٹر بھی ملوث رہی۔ولید بن طلال ٹھہرے سیدھے سادھے کاروباری آدمی، انہوں نے اس سے پہلے تشدد کے نام پہ صرف ہالی وڈ کی فلمیں دیکھی ہونگی ۔ انہیں ان ہی کے ہوٹل کی لابی میں کھرے گدے پہ رات گزارنے پہ مجبور کرنا ہی ان کے اعصاب توڑنے کے لئے کافی تھا۔دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل کم سے کم اٹھارہ کھرب ڈالر کے اثاثوں کے مالک، ولید بن طلال کنگڈم ہولڈنگ کے پچانوے فیصد حصص کے مالک ہیں جو فاربیز گلوبل رینکنگ کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی دو ہزار کمپنیوں میں سے ایک ہے۔اس سے قبل محمد بن سلمان اپنے معروف اقتصادی نظرئیے وژن 2030 ء کا اعلان کرچکے تھے اور طلال بن ولید اس کے پرزور حامی تھے۔ اس وژن 2030ء کا ایک منصوبہ نیوم ہے جو سعودی عرب کی ثقافت اور اقتصادی منظرنامے میں بلاشبہ انقلاب کا درجہ رکھتا ہے۔محمد بن سلمان سعودی عرب کی معیشت کو تیل کی انحصاری سے آزاد کرکے اسے دیگر شعبوں تک پھیلانے کے خواہشمند ہیں۔ یہ ایک مثبت سوچ تھی جسے ولید بن طلال سمیت تمام سعودی سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل ہے۔ ساڑھے چھ سو بلین ڈالر سے قائم کیا جانے والا تقریبا 26,500 اسکوائر کلومیٹر پہ پھیلے اس جدید ترین نیوم منصوبے کے ایک ستائش کار صدر ٹرمپ ہیںجن کے محمد بن سلمان اور ولید بن طلال دونوں سے گہرے اور ذاتی نوعیت کے تعلقات ہیں۔ولید بن طلال صدر ٹرمپ کی کمپنی کو نوے کی دہائی میں مالی سہارا بھی دے چکے ہیں جب انہیں اس کی شدید ضرورت تھی۔ولید بن طلال مبینہ طور پہ اس منصوبے کے خالقوں میں سے ایک ہیں اور جب محمد بن سلمان نے اس منصوبے کا اعلان کیا تو انہوں نے کھل کر ان کی دور اندیشی کی داد دی تھی۔سعودی آرامکو جو دنیا کی سب سے زیادہ مالیت رکھنے والی کمپنی ہے اور جس کی مارکیٹ مالیت کا اندازہ دس ٹرلین ڈالر ہے۔ 2011ء میں اس نے 311 بلین ڈالر کا ریوینیو دیا تھا۔ آرامکو 260 بلین بیرل سے زائد کی یومیہ تیل کی پیداوار کے ساتھ دنیا کی دوسری تیل کی پیداوار کی کمپنی ہے ۔ ولید بن طلال نے ہی تاریخ میں پہلی بار سعودی آرامکو کے پانچ فیصد حصص فروخت کرنے اور نیوم منصوبے میں لگانے کا مشورہ دیا تھا جو سلمان بن محمد کی ایڈونچر پسند طبیعت کو بھا گیا تھا۔ولید بن طلال نے تسلیم کیا تھا کہ آرامکو سعودی عرب کا اثاثہ ہے لیکن اثاثے ہی ضرورت میں کام آتے ہیں۔سب کچھ اچھا چل رہا تھا کہ ساتھ ہی انہوں نے چین کو یہ پانچ فیصد حصص خریدنے کی خواہش کا اظہار کردیا کیونکہ چین کو تیل کی ضرورت تھی۔ ولید بن طلال کی خواہش محض خواہش نہیں تھی یہ ایک ارادہ تھا۔ جس پہ خطرے کی گھنٹی بجنا لازمی تھا۔اور وہ بج گئی۔ 23 اکتوبر کو انہوں نے میڈیا پہ اس خواہش کا اظہار کیا اور چار نومبر کو وہ دیگر شہزادوں کے ہمراہ دھر لیے گئے۔ یہ امر بھی باعث دلچسپی ہوگا کہ صدر ٹرمپ سے ذاتی تعلقات کے باوجود وہ ان کے صدارتی امیدوار بننے کے شدید ناقد تھے لیکن یہ کوئی اتنا بڑا جرم نہیں تھا کیونکہ خود محمد بن سلمان بطور سعودی وزیر خارجہ، صدر اوباما کی خارجہ پالیسیوں کے نقاد رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پختہ عمر شہزادہ نائف ، جن کی اچانک برطرفی کے بعد ہی شہزادہ محمد بن سلمان کی تخت آرائی عمل میں آئی تھی، امریکہ کے خاص آدمی تصور کئے جاتے تھے۔ مملکت سعودی عرب میں انسداد دہشت گردی پروگرام شروع کرنے اور امریکہ کے ساتھ حساس معلومات کے تبادلے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے ۔یہی نہیں ، وہ غالبا دنیا کے پہلے مسلمان وزیر ہونگے جنہیں ان کی خدمات کے صلے میں امریکی سی آئی اے نے اپنے سب سے بڑے ایوارڈ جارج ٹینیٹ میڈل سے نوازا۔یہ میڈل انہیںاس وقت کے سی آئی اے ڈائریکٹر اور آج کے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پہنایا۔گویا مسئلہ امریکی حمایت یا مخالفت تھا ہی نہیں۔اصل مسئلہ کچھ اور تھا۔ سعودی آرامکو کے حصص کی فروخت کے اعلان کے ساتھ ہی امریکہ نے خواہش ظاہر کی تھی کہ آرامکو کے حصص کو نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں لسٹ کردیا جائے۔نیویارک اسٹاک ایکسچنج امریکہ کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور بائیس ٹریلین ڈالر کی مالیت کے حصص کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا اسٹاک ایکسچینج ہے جس کی اوسط یومیہ تجارتی مالیت 170 بلین ڈالر ہے۔اندازہ لگائیں کہ آرامکو کے حصص کے ساتھ اس کی مالیت کتنی ہوجائے گی ۔ ارامکو جو دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی کمپنی ہے اور جس کی مارکیٹ مالیت کا اندازہ دس ٹرلین ڈالر ہے۔ یہ 260 بلین بیرل سے زائد کی یومیہ تیل کی پیداوار کے ساتھ دنیا کی دوسری تیل کی پیداوار کی کمپنی ہے جس کی مکمل ملکیت اس وقت سعودی حکومت کے پاس ہے۔ پانچ فیصد حصص کی نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں لسٹ ہونے کا مطلب امریکہ کی گرتی ہوئی معیشت کو ایک بڑا سہارا دینا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آرامکو کے حصص کی فروخت اندرونی بدانتظامیوں کے سبب التوا کا شکار ہوگئی لیکن سلمان بن محمد کو جو ثابت کرنا تھا انہوں نے کردیا۔کینیڈا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی کچھ عرصے سے تلخی کا شکار ہیں۔حال ہی میں ہونے والی جی سیون کانفرنس میں صدر ٹرمپ اور جسٹن ٹروڈو کے درمیان توتو میں میں کچھ بڑھ گئی تھی۔ اس میں توتو یقینا صدر ٹرمپ کی طرف سے ہوئی تھی جنہوں نے جسٹن ٹروڈو کو بددیانت اور جھوٹا تک قرار دیا۔امریکہ کی یورپ کے ساتھ تجارتی جنگ میں کینیڈا بھی لپیٹ میں آیا تھا اور امریکہ نے اس کی مصنوعات پہ بھاری درامدی ڈیوٹی عائد کردی تھی۔اس کا کینیڈا کو بجا طور پہ قلق ہوا اور اس نے جوابا یہی اقدام کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ایران پہ لگائی گئی حالیہ امریکی پابندیوں میں بھی کینیڈا شریک نہیں۔وہ اس سے پہلے جوہری معاہدے میں بھی شریک نہیں تھا بلکہ اس نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنی شرائط پہ ایران پہ علیحدہ پابندیاں لگا رکھی تھیں جن میں سے اکثر اس سال اٹھا لی تھیں۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ نے یورپ اور چین سمیت سب کو دھمکی دی کہ جو ایران کے ساتھ تجارت کرے گا وہ ہمارے ساتھ نہیں کرے گا۔کینیڈا غالبا امریکی دھونس میں آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سعودی عرب کینیڈا پہ پابندیاں نہیں لگا سکتا لیکن اسے معاشی طور پہ زک ضرور پہنچا سکتا ہے۔ کینیڈین یونیورسٹیوں سے اپنے طلبا کا انخلا پہلا قدم ہے۔ ساتھ ہی کینیڈین کنسٹرکشن کمپنیوں میں سعودی سرمایہ کاروں کی انویسٹمنٹ ہے وہ بھی نکال لی گئی تو صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔دونوں ممالک میں تجارتی حجم کچھ زیادہ نہیں ہے اوروہ کہیں سے بھی پورا ہوسکتا ہے لیکن محمد بن سلمان کو سوچنا ہوگا کہ وہ اسی طرح امریکی خواہشات پہ چلتے رہے تودنیا میں سعودی عرب کے دوستوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔