ایران کے ساتھ مصالحت کاری کے مقصد سے وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب‘ حوصلہ افزا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقاتوں میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ پورے خطے میں امن و استحکام کا راج ہو‘ خصوصاً خلیجی ممالک میں امن کو انہوں نے عالمی سطح پر کشیدگی کے خاتمہ کے لئے ضروری قرار دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہر قسم کے تنازعات و اختلاف کو سفارت کاری سے طے کیا جا سکتا ہے۔جنگوں اور مسلح تنازعات سے عاجز دنیا امن کی طرف متوجہ ہو رہی ہے، مسلم دنیا کو بھی اس تبدیل شدہ صورت حال سے ہم آہنگ ہو کر اپنے تنازعات طے کرنے پر دھیان دینا چاہئے۔ ایران کے بین الاقوامی معاملات مدت سے خراب چلے آ رہے ہیں۔ عرب و عجم کی تاریخی چپقلش ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد تیز ہو گئی۔ امریکہ نے سوویت انہدام کے بعد دنیا میں توازن طاقت کا نیا نظام نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے دیا۔ مشرق وسطیٰ میں ہوشیار پالیسی ساز امریکیوں نے سعودی عرب کی عالم اسلام میں حیثیت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دوسری طرف اسرائیل کی سرپرستی کر کے ایک جانب یہودی سرمائے کو امریکی معیشت میں بڑھایا ساتھ ہی اسرائیل کی جارحیت کا خوف دلا کر عرب ممالک کو دفاعی سامان اور اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ امریکی دفاعی صنعتوں کو چالو رکھنے کے لئے سعودی عرب اور ایران کے مابین تاریخی اختلافات کو مسلکی اور علاقائی تصادم کی شکل میں ابھارا گیا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ دیگر ریپبلکن صدور کے برعکس جنگوں کے خاتمہ کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلا کے معاملات پر پیشرفت کی اجازت دیدی ہے۔ طالبان اور امریکی وفد ایک بارپھر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ امریکی حکام اپنے عالمی اثرورسوخ اور طاقت کو اب جنگ سے زیادہ تجارت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے توسیع دینا چاہتے ہیں۔ یہ سوچ انہیں عالمی تنازعات کے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کر رہی ہے۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے وزیر اعظم عمران خان امریکہ گئے تو صدر ٹرمپ نے ان سے ملاقات میں ایران امریکہ کشیدگی کم کرانے کے لئے کردار ادا کرنے کو کہا۔ امریکہ ایران کشیدگی اس وقت تک کم نہیں ہو سکتی جب تک کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات معمول پر نہ آئیں۔ گویا ایران سعودیہ اختلافات کم کرنے کی ہر کوشش براہ راست ایران امریکہ کشیدگی میں کمی کا سبب ہو سکتی ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لئے فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون بھی سرگرم ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے صدر میکرون کے چار نکاتی منصوبے پر آمادگی ظاہر کی۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی الگ کوشش کرتے رہے ہیں کہ صدر روحانی صدر ٹرمپ سے ملاقات پر آمادہ ہو جائیں۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف چند ہفتے قبل واضح کر چکے ہیں کہ امریکی کانگرس اگر ایران پر سے پابندیاں اٹھانے کی توثیق کر دے تو ایران مستقل طور پر خود کو غیر جوہری ریاست قرار دے سکتا ہے۔ پاکستان مشرق وسطیٰ میں کسی بھی تصادم سے متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ہے۔ عراق ایران جنگ ہو۔ عراق کا کویت پر قبضہ ہو‘ بحرین کی داخلی سلامتی کے مسائل ہوں‘ یمن اور شام کی خانہ جنگی ہو یا پھر ایران سعودیہ کشیدگی کا جن بوتل سے نکلنے کا اندیشہ ہو، پاکستان کی خلیجی ممالک میں کام کرنے والی افرادی قوت‘ تیل کی فراہمی، غلہ، لائیو سٹاک اور سبزیوں کی منڈی کے طور پر تجارتی مفادات دائو پر لگ سکتے ہیں۔ دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لئے پاکستان پہلے بھی کوشاں رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے مصالحتی مشن کو امریکہ اور دوسرے اہم ممالک کی تائید حاصل ہے اس لئے توقع کی جا رہی ہے کہ مصالحت کا آغاز یمن میں جنگ بندی سے ہو سکتا ہے۔ صدر روحانی فرانسیسی صدر میکرون کے جس چار نکاتی منصوبے کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں اس میں ایسی گنجائش موجود جو یمن کے تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں معاونت فراہم کر سکے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مثالی برادرانہ تعلقات ہیں۔ جنگوں میں ‘ معاشی بحران میں اور سفارتی مشکلات کے زمانے میں سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی۔ دونوں کے مابین دفاعی اور تزویراتی امور پر افہام و تفہیم رہی ہے۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ سرد جنگ ختم ہوئی‘ ملٹی پولر دنیا دفاعی طاقت کی بجائے تجارتی قوت پر یقین رکھتی ہے۔ پاکستان چین کی مدد سے تجارتی رابطہ کاری شروع کر چکا ہے۔ سی پیک منڈیوں اور تجارتی راہداریوں کو ملانے کے بڑے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہے۔ افغانستان کا آتش فشاں سرد ہو رہا ہے۔ مقامی جنگجو لڑائی سے تھک چکے ہیں۔ امریکہ بھی جنگ جاری رکھنے سے انکاری ہے۔ ان حالات میں افغانستان وسط ایشیا کی منڈیوں تک رسائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہاں امن قائم ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان اور ایران کو ہو گا۔ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ اگلے 25سال میں یہ ذخائر شاید ملکی معیشت کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین صلح یمن‘ لبنان‘ شام اور بحرین کی مشکلات کے خاتمہ کا ذریعہ ہوں گی بلکہ فلسطین کے مظلوم باشندوں اور شام کے بدقسمت شہری بھی امن کا چمکتا اور خوشنما چہرہ دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو علاقائی تنازعات کے حل کے لئے جاری کوششوں کا صلہ کشمیر کے پرامن حل اور پاکستان کے لئے معاشی مواقع کی صورت میں مل سکتا ہے۔