چند دن پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو طعنہ دیا کہ وہ امریکی چھتری کے بنا دو ہفتے بھی نہیں چل سکتا۔ اس طعنے کے پیچھے امریکہ کے بعض مطالبات تھے جن کا تعلق تیل کی پیداوار یا قیمتوں سے تھا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ سعودی عرب نے طعنے کا مناسب جواب دیا اور کہا کہ جب امریکہ نہیں تھا‘ سعودی عرب تب بھی تھا(سعودی عرب کے نام سے جو مملکت ہے وہ تو صدی بھر کی بات ہے لیکن نجدوحجاز طویل مدت تک نامعلوم ہی ملک رہے ہیں اور اسی کا نام سعودی عرب ہے۔ (بشمول الاحصار اور الاثیر) اور یہ کہ ایسا سوچنا غلط ہے کہ امریکی حفاظت کے بغیر سعودی عرب نہیں رہ سکتا۔ جو اب میں امریکہ سعودی دوستی پر اعتماد بھی ظاہر کیا گیا۔ کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے جسے ’’ٹھن گئی‘‘ کا عنوان دیا جا سکے۔ طعنہ تھا اور اس کے پیچھے کوئی فرمائش۔ اور طعنہ اپنی جگہ اگر اتنا غلط نہیں تھا تو اتنا صحیح بھی نہیں تھا۔ طعنے میں وزن یوں ہے کہ سعودی عرب بہرحال اتنی بڑی فوجی طاقت نہیں ہے کہ کسی بڑی جنگ کا مقابلہ اکیلے ہی کر سکے۔اگرچہ کسی بڑی جنگ کا امکان دور و نزدیک نظر نہیں آتا اور طعنے میں بے وزنی یوں ہے کہ سعودی عرب نے یمن کے حوثیوں کی طرف سے آنے والے خطرے کا مقابلہ اکیلے ہی کیا ہے۔ ہاں‘ سوڈان اس کی فوجی مدد ضرور کر رہا ہے۔ امارات بھی اتحادی ہے لیکن اس کے محض چند درجن فوجی اس جنگ میں ہیں۔ سوڈان کے دستے بھی شامل ہیں۔ مصر نے بس’’جواب‘‘ دیا ہے اگرچہ وہ اب بھی اتحادی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حوثیوں کے میزائل گرانے کا نظام امریکی ہے تو یہ اتنی زور دار دلیل نہیں ہے کہ اسے ’’امریکی مدد‘‘ مانا جائے۔ امریکی ہتھیار اور دفاعی آلات و نظام دنیا کے بہت سے ملک خریدتے ہیں۔ سعودی عرب نے بھی پیسہ دیا اور ہتھیار لیے۔ اس سب فضا کے باوجود جو طعنے اور جواب طعنہ کی وجہ سے بنی‘ امریکہ سعودی عرب کی دوستی قائم ہے۔ اگرچہ یمن میں امریکہ سعودی عرب کی کچھ مدد نہیں کر رہا(اس کی موجودگی صرف بحیرہ احمر میں ہے تاکہ نہر سویز اور آبنائے مندب کے درمیان جہاز رانی کو خطرات سے بچایا جا سکے) لیکن یہ ’’غیر جانبداری‘‘ بھی اوباما کے دور صدارت کی جانبداری کے مقابلے میں بہت غنیمت ہے۔ اوباما کی صدارت کے دوران امریکہ بطور ملک سعودی عرب کا اتحادی تھا لیکن اوباما اور اس کی لابی نے بڑی خطرناک چال چلی۔ اوباما عربوں کا دشمن تھا اور سعودی عرب کا بالخصوص۔ حوثیوں کا قبضہ اسی کا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ یہ قبضہ 2015ء میں ہوا جب پچھلے دو برس سے فوجی تربیت حاصل کرنے والے حوثی صعدہ سے نکلے اور چند مہینوں میں عدن تک جا پہنچے۔ عدن تک کا سارا علاقہ تو ان کے قبضے میں تھا ہی‘ عدن شہر کا ایک حصہ بھی حوثیوں کے پاس چلا گیا۔ اس کا مطلب بالکل صاف تھا۔ بحیرہ احمر پر ایران کا قبضہ اور باب المندب پر اس کا کنٹرول ہرمز کے سمندری درے پر اس کے کنٹرول سے بھی بڑھ جاتا۔ اوباما کی لابی نے جب حوثی عدن سے کچھ دور تھے اور پہنچنے میں کئی دن لگتے تھے، عدن کے شمال میں واقع بہت بڑے گوداموں میں امریکی اسلحہ ذخیرہ کرنا شروع کر دیا۔ سعودی یہ سمجھے کہ امریکہ عدن کا دفاع کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ اوباما کی نیت کو سمجھ ہی نہ سکے۔ جونہی حوثی وہاں پہنچے‘ امریکی فوجی جہازوں میں بیٹھ کر پرواز کر گئے۔ سعودی عرب کو تب پتہ چلا کہ اوباما نے امریکی ہتھیاروں کی بہت بڑی کھیپ ’دن دہاڑے‘حوثیوں کے قبضے میں دینے کی کاریگری کر دی ہے۔ اوباما کا خواب بڑا سہانا تھا۔ حوثی امریکی اسلحے کے بل پر صعدہ سے نکلتے اور سعودی سرحد پر واقع صوبے جازان اور نجران کو پامال کرتے ہوئے جدہ کی طرف بڑھتے۔ جازان کی پٹی ہی تو فتح کرنا تھی۔ پھر لق ودق صحرائوں کو عبور کرنا کون سا مشکل کام تھا‘ جدہ تک کا راستہ پھر بے روک ہی تھا۔ لیکن دو ماہ بعد وقت نے ثابت کیا کہ امریکہ کا ’’ڈونکی کنگ‘‘ تھا۔ سعودی فوج نے اپنی کوتاہ قامتی (بشمول کوتاہ اندیشی) کے باوجود اپنی سرحد کا کامیاب دفاع کیا۔ یہی نہیں‘ آگے بڑھ کر یمن کے قبائل کی مزاحمت منظم کی اور چند ہفتوں میں عدن کی بندرگاہ چھڑالی۔ عدن کی اہمیت وہی ہے جو ہمارے ہاں کراچی کی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کراچی بین الاقوامی سمندری ٹریفک پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ عدن پر جس کا قبضہ ہو گا‘ وہ بحیرہ احمر میں بہت کچھ کر سکتا ہے اور بحیرہ احمر محض ایک سمندری نہر نہیں ہے۔ امریکہ‘ یورپ‘ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا کو باقی افریقہ‘ ایشیا اور مشرق بعید سے ملانے والا راستہ ہے۔ اس میں رکاوٹ آ جائے تو آدھی عالمی تجارت معطل ہو جائے۔ سعودی عرب نے پھر اکیلے ہی بحیرہ احمر کو مزید محفوظ بنایا۔ پہلے المدخا کی بڑی بندرگاہ ‘ پھر الموخا کی ثانوی بندرگاہ واپس لی اور اس کے بعد اس سال الحدیدہ جا پہنچا۔ اس وقت بحیرہ احمر کا یمنی ساحل آدھے سے زیادہ یمن کے کنٹرول میں ہے‘ آدھے سے کم حوثیوں کے پاس ہے لیکن الحدیدہ کا محاصرہ جاری ہے ۔ جونہی یہ حوثیوں کے ہاتھ سے نکلا۔ یمن کا باقی ماندہ ساحل بھی ان کے قبضے سے نکل جائے گا۔ چنانچہ امریکی طعنے کی بے وزنی کا یہ حصہ یوں ہے۔ امریکہ سعودی تعلقات میں ایک مسئلہ بین الاقوامی شہرت یافتہ جلا وطن سعودی صحافی جمال خشوگی کا مبینہ قتل ہو سکتا ہے۔ یہ مقبول صحافی شاہی خاندان کا ناقد تھا۔ ترکی میں سعودی سفارت خانے گیا اور لاپتہ ہو گیا۔ خشوگی نیو یارک ٹائمز کا خصوصی نمائندہ تھا۔ اگر قتل کا الزام ثابت ہو گیا تو امریکہ۔ لامحالہ۔ اس کے قاتل سعودی عرب سے مانگے گا اور صورتحال پھر مشکل ہو جائے گی۔