اصولا ًلبرل معیشت کو ہر قسم کی حدود و قیود سے آزاد ہونا چاہئے اور ایسا ہوتا بھی ہے۔ دھن کا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔ اس کا دھرم مسلسل بڑھوتری ہے ۔ اخلاقی اقدار اگر اس راہ میں رکاوٹ ہوں تو انہیں ایک طرف ڈال دینا اس کی شریعت میں بالکل مباح بلکہ عین مستحب ہے۔ مذہب اسی لئے لبرل معیشت کی آنکھ میںکھٹکتا ہے کہ اس میں موجود اخلاقی معیارات سرمائے پہ کہیں نہ کہیں قدغن لگا دیتے ہیں۔جب مذہب اسلام جیسا متحرک دین ہو جس میں ضرورت از زائد ہر شے صدقہ کرنے ، مال جمع نہ کرنے اور سود کو حرام قرار دئیے جانے جیسے انقلابی احکامات موجود ہوں تو یہ آج کی لبرل معیشت کا سب سے بڑا دشمن بن جاتا ہے۔ ایسے میں انسان کو مذہب کا متبادل ،لبرل اخلاقیات کا سبق پڑھا یا جاتا ہے تاکہ مذہب کی کمی محسوس نہ ہو۔ لبرل معیشت کے تحت ہر ملک کو اپنے مفادات کے مطابق دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں اور معاشی منصوبوں کے اشتراک کا حق ہونا چاہئے لیکن ہوتا یہ ہے کہ معاشی اور دفاعی طور پہ مضبوط ممالک یا یوں کہہ لیں کہ دنیا میں سرمایہ داری کے سرخیل اس لبرل معیشت کو اپنے حجم اور طاقت کے مطابق اپنی مرضی کا تابع کردیتے ہیں۔ کمزور ملکوں پہ پابندیاں لگائی جاتی ہیں پھر ان ممالک کا معاشی مقاطعہ کیا جاتا ہے جو پابندی کا شکار ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انہیں دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرکے اپنے نام نہاد دہشت گردی کی پیمائش کرنے والوں اداروں کی لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔یہاں وہ ممالک ان کا دفاع کرتے ہیں جن کا معاشی مفاد ان ممالک سے وابستہ ہو اور جہاں قدرتی وسائل کا انبار لگا ہو جنہیں ابھی کشید کیا جانا ہو۔جب بھی کچھ کمزور اور چھوٹے ممالک سرکشی پہ آمادہ ہوں اور سکرپٹ کے خلاف ڈائیلاگ بولنے لگیں تو سزا کے طور پہ ان کی مشکیں کس دی جاتی ہیں اور یوں لبرل مارکیٹ میں وہ اتنے لبرل نہیں رہتے جتنا کہ ان کا حق ہے۔ایران اور شمالی کوریا کی مثال سامنے ہے۔ جہاں دھونس دھمکی کا داو نہ چلے وہاں لشکر کشی کی سہولت ہمیشہ موجود ہے۔سیاسی اور دفاعی مفادات کو لبرل معیشت سے علیحدہ کرنا کبھی ممکن نہیں ہوا۔ یوں دنیا پہ درحقیقت چند ایک سرمایہ دار ممالک کا قبضہ ہے جو آزاد تجارت کو اپنے تزویراتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں طاقت اور سرمایہ ایک دوسرے میں اضافے کا باعث ہیں اور دونوں ہی ان خطوں سے کشید کئے جاتے ہیں جہاں انسانیت بھوک سے بلک رہی ہو۔اس معیشت کا مطمع نظر کبھی انسانیت کی فلاح نہیں رہا۔ یہ اتنی زور آور ہوچکی ہے کہ اپنی پالن ہار حکومتوں کو اپنا غلام بنا چکی ہے۔ میں نے اوپر لبرل اخلاقیات کا ذکر کیا اور مذہب کو اس کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ اس کی تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ بے شمار ایسی صنعتیں ہیں جو مذہبی طور پہ ممنوع لیکن تجارتی طور پہ نافع ہیں اور دنیا ان سے بڑے حجم کا ریوینیو سمیٹ رہی ہے۔ان ہی میں ایک سیاحت ہے ۔ سیاحت کا مطلب ہے کہ آپ اپنے ملک میں آنے والے سیاحوں کو ہر وہ سہولت فراہم کریں جو باقی دنیا میں موجود ہے۔ ان میں پرتعیش قیام گاہیں،شراب خانے، کھلے ڈلے ساحل ،مساج سینٹر ، مخلوط رقص گاہیں، ہر قسم کے ماکولات و مشروبات سبھی کچھ شامل ہے۔ جہاں سیاح کی جیب سے نکلا سرمایہ معاشی چکر میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کارپوریٹ ذہنیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ یہ مذہب کو بھی اپنے حق میں استعمال کرلیتا ہے۔اسے اس سے غرض نہیں کہ آپ کا مذہب کیا ہے بس اسے سرمائے کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہئے لہٰذا آپ کو ایک نئی انڈسٹری حلال سیاحت ، حلال میک اپ اوربرانڈڈ حجاب کے نام پہ ملے گی۔آخر کو دنیا مومنوں سے خالی تو نہیں ہوئی تو کیا انہیں تفریح کا حق نہیں۔ لہٰذا جا بجا ایسے موٹیل کھول دیے گئے ہیں جہاں حلال فوڈ کا ہی نہیں نماز کا انتظام بھی ہے۔اب حاجی ثنا اللہ کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔امکانات کے در ہیں کہ وا ہوئے جاتے ہیں اور سرمایہ ان سے درانہ وار گھسا چلا آتا ہے۔ اس کارپوریٹ دنیا کو اور کچھ نہیں چاہئے۔مجھے یہ تمہید طولانی یوں باندھنی پڑی کہ میں نے سعودی عرب کی نوجوان قیادت کے وژن 2030ء پہ کئی کالم لکھے جن میں بیان کیا کہ نوجوان شہزادہ محمد بن سلمان بہت تیزی دکھا رہے ہیں۔ انہیں اپنی طویل عرصے سے تیل پہ انحصار کرنے والی مملکت کے لئے نئے امکانات جلد از جلد تلاش کرنے ہیں۔لبرل مارکیٹ میں نئے امکانات جہاں وہ امریکہ کے اثر سے نکل سکیں۔ اس کے لئے انہوں نے وہی کیا جو مارکیٹ میں رائج تھا یعنی ایسی معاشی سرگرمیاں جو سعودی عرب کے روایتی اور مذہبی ماحول میں ممکن نہیں تھیں کہ وہ بہرحال امت مسلمہ کی مذہبی شناخت ہے۔اس کے لئے انہوں نے اپنے وژن 2030ء کے ایک حصے کے طور پہ شہر نیوم کی بنیاد ڈالی ۔اس شہر میں جہاں آزادانہ سرمایہ کاری کے وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو سعودی عرب کی حدود میں بوجوہ ممکن نہیں تھے۔ اس شہر جدید کے کرتا دھرتا کوئی اور نہیں سیمنز کمپنی کے سابق اور آرکونک کے موجودہ سربراہ کلاز کرسچین فیلڈ ہیں جو دنیا کے بڑے سرمایہ کاروں میں شامل سمجھے جاتے ہیں اور وہ اپنا کام بخوبی کررہے ہیں جو کچھ اور نہیں ، دنیا بھر سے سرمایہ کار وں کو نیوم میں گھیر کر لانا ہے۔اس وقت تک سرمایہ دار دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ محمد بن سلمان کے ساتھ کھڑا تھا ، کھربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے موجود تھے،اس کے چہیتے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی منظرعام پہ آچکے تھے لیکن غالباً انہیں اندازہ تھا کہ سعودی عرب کی یہ معاشی آزاد روی امریکہ کو پسند نہیں آئے گی۔ اسی لئے حفظ ماتقدم کے طور پہ انہوں نے انسانی حقوق بالخصوص عورتوں کے حقوق کو اہمیت دی تاکہ مستقبل بعید میں ان کے ملک کو اس حوالے سے قدغنوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اپنی مملکت میں جکڑبندیوں کو کم کرنا شروع کیا۔ عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دی۔سینما اور کلب کھولے اور تاریخ میں پہلی بار سال نو کے جشن کا اہتمام کیا۔ ان اقدامات سے جہاں دنیا میں مملکت سے جذباتی وابستگی رکھنے والوں کو ٹھیس پہنچی وہیں خو د سعودی عرب کے اندر انہیں خوش آمدید کہا گیا۔اس آزاد روی کی توجیح انہوں نے خود یہ پیش کی کہ اس طرح وہ نوجوانوں میں مذہبی شدت پسندی کم کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا یہ موقف عالمی برادری میں سراہا گیا کیونکہ یہی تو وہ لاٹھی ہے جس سے معتوب ممالک کو دو عشرے سے ہانکا جارہا ہے ۔نوجوان محمد بن سلمان کے سامنے امکانات بھی تھے اور ان کے نتائج بھی۔ انہوں نے پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھایا جو معاشی مشکلات کا شکار ہے اور جس کی نو منتخب حکومت اس معاشی بحران پہ قابو پانے کے لئے فطری طور پہ ان کی مملکت کی طرف دیکھ رہی تھی جس نے پاکستان کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے سی پیک میں شمولیت کا اعلان کیا اور گوادرآئل سٹی میں سرمایہ کاری جس کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا ، اسے پختہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی ریکو ڈک اور سینڈیک منصوبے جو کئی پیچیدگیوں کا شکار ہیں، گود لینے کا فیصلہ کیا۔ ان اعلانات کے ساتھ ہی امریکہ نے سعودی عرب اور اوپیک پہ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لئے دباو ڈالنا شروع کیا جسے چین اور روس جو اوپیک ممبر نہیں ہیں کے ساتھ ہی ایران اور سعودی عرب دونوں نے مسترد کردیا۔ آج ہی امریکہ نے سعودی عرب سمیت کچھ امیر ممالک کی فوجی امداد بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اپنے معاشی امکانات میں امریکی خواہشات سے نکلنے کی کوشش سے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہوجائیں گے لیکن سرمائے کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ لبرل معیشت اتنی بھی لبرل نہیں ہے کہ کسی کی برتری کو کھلے عام چیلنج کیا جائے اور وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلے۔اس لئے رد عمل تو ہو رہا ہے یہ کس حد تک ہوگا اس کا انحصار حالات پہ ہے۔پاکستان کی خوش نصیبی اس کا محل وقوع اور معدنی وسائل ہیں۔ ہم ریکو ڈک پہ بڑے ہرجانے کی صورت میں ایک عالمی مقدمہ بھگت چکے ہیں جو ہمارے سابق چیف جسٹس کے قدموں کی برکت سے ہوا۔سعودی عرب اس قضئے سے جان چھڑانے میں ہماری مدد کرسکتا ہے لیکن مدعی کمپنی بیرک گولڈکینیڈین ہے اورورلڈ بینک اسے بلیک لسٹ کرچکاہے۔دوسری طرف سینڈیک کی ذخیرہ کشی کے اختیارات ہم نے 2022ء تک بلاتعطل چین کو تفویض کررکھے ہیں۔ ان پیچیدگیوں سے نبٹنا حکومت کا کام ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس خطے کے غریب عوام کے لئے ان بھاری بھرکم سرمایہ دار ملکوں سے کیا حاصل کیا جائے گا۔