بلوچستان میں شدت پسندی کو خطہ کے جغرافیائی اور تذویراتی معاملات سے جوڑنا گو بہت حساس معاملہ ہے مگر حالیہ کارروائیوں میں ان دونوں کے باہم تانے بانے ملنے کے قابل قدر اشارے ملے ہیں۔ جن میں سے ایک اشارہ بلوچستان میں مختلف ممالک کی طرف سے ایسے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو سازش کے تحت پروان چڑھنا ہے جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان کی سرزمین استعمال کرے ہمسایہ ممالک میں بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ خطہ کے ممالک اپنے مسائل ڈپلومیسی اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے سیاسی اورجغرافیائی اہداف کے حصول کے لئے مختلف عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں جن عناصر کے سیاسی اور سٹریٹجک مفادات ہیں ان کی غیر ملکی پراکسیز طویل تاریخ ہے ماضی میں افغانستان بھارت اور پاکستان خطہ میں علاقائی پراکسیز کو فروغ دیتے رہے ہیں مگر بلوچستان میں سعودی عرب اور ایران شدت پسندی کو مسلکی رنگ رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی مخاصمت اور سیاسی اور سٹریٹجک تضادات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ حالیہ منظر نامے میں ایران یمن میں حوثیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اسی طرح سعودی عرب کی طرف سے ایران مخالف گروپ جیش العدل کی حمائت غیر ملکی پراکسی کی مثالیں ہیں اسی طرح ایران کا دعویٰ ہے کہ جیش العدل جس کا گڑھ توسستان میں ہے مگر یہ تنظیم ایران مخالف سرگرمیوں کے لئے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنی ہے اسی طرح پاکستان میں بھی بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ ایران بلوچستان علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ بلوچستان میں شدت پسند گروہ پاکستان کے ساتھ اتنے ہی ایران کے بھی خلاف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کی حکومت بلوچ قومیت پسندوں کو کچلنے میں مصروف ہے اس لئے ایران کے لئے پاکستان کے بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کرنا اتنا آسان کام بھی نہیں جو سیکولر رجحان رکھتے ہیں اور ایران سیکولر عناصر کی سرکوبی میں مصروف ہے ایران اپنی سرزمین پر ایسے سیکولر عناصر کے خلاف بھی کارروائیاں کر رہا ہے جن کے بلوچستان کی شدت پسند قیادت کے ساتھ مراسم ہیں جن میں شازمان جمہوریت ، مروم بلوچستان ایسی سیکولر تحریکیں ہیں جن کی طرف سے ایران سرحد پر ایرانی سکیورٹی فورسز پر حملے بھی کئے جاتے ہیں۔ بہت سے قومیت پسندوں کا خیال ہے کہ 1980ء اور 1990ء میں ایرانی ایجنٹوں نے بھی سستان اور بلوچستان قومیت پسندوں کو کراچی میں قتل کروا دیا تھا۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ بدلتے حالات ممکن ہے بلوچ شدت پسندوں کو ایران کے قریب کر رہے ہوں۔ بلوچستان میں شدت پسندی کی تحریک بلوچ علیحدگی پسند قیادت حرب یار مری براہمداغ بگٹی اور بختیار ڈومکی کے کنٹرول سے آزاد ہوتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے یہ ہے بلوچ علیحدگی پسندوں کی بیشتر قیادت یورپی ممالک میں پناہ حاصل کئے ہوئے ہے اور یورپ میں بلوچ کاز کی لابنگ کرتی ہے مگر اس تحریک پر ایران کا لیبل لگنے سے ان کی تحریک متاثر ہو سکتی ہے اسی طرح ایک تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کی نئی قیادت کا تعلق نہ صرف مڈل کلاس سے ہے بلکہ اس کی یورپی ممالک تک رسائی بھی نہیں دوسرے یہ لوگ اپنے آپریشن مقامی طور پر چلا رہے ہیں اور ان کو اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے وسائل اور ذرائع بھی مقامی طور پر ہمسایہ ممالک سے حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ شدت پسند تربت اور مکران ریجن پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور یہ علاقے ایران کی سرحد پر ہیںان کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ ان کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں میسر ہوں ایران کو بلوچستان میں سعودی حمایت یافتہ گروہوں کے علاوہ بلوچستان میں ایک مسلک کے خلاف مسلسل حملوں پر بھی تشویش ہے۔ اب سعودی عرب نے بلوچستان میں آئل ریفائنری لگانے کا اعلان بھی کر دیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ایران بلکہ چین کی تشویش میں بھی اضافہ ہو رہا ہے بلوچستان میں بہت سے حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کے بلوچستان میں سٹریٹجک اور سیاسی اہداف میںاور گوادر میں بھاری سرمایہ کاری بھی انہی سٹریٹجک اہداف کے حصول کے لئے کی جا رہی ہے۔ ایران کے نزدیک سعودی عرب کی گوادر میں سرمایہ کاری کا سیدھا مطلب خطہ میں امریکہ کا قدم جمانا ہے۔ یہ صورتحال چین کے لئے بھی پریشان کن ہے ۔ایران اور امریکہ کے مابین تنائو میں اضافہ کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں بلوچستان میں سعودی عرب ایران پراکسی میں شدت آ سکتی ہے۔ ایران نے بلوچستان میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے ایران کا تیل نہ صرف بلوچستان بلکہ پنجاب کے اضلاع تک ملتا ہے کوئٹہ اور بلوچستان کے بازار ایرانی مصنوعات سے اٹے پڑے ہیں۔ ایران مکران ریجن کو بجلی بھی سپلائی کرتا ہے۔ بلوچستان قیادت اس اندیشے کا اظہار کر رہی ہے کہ ایران بلوچستان میں اپنے اثرورسوخ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے ۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے ریفائنری لگانے سے ایران کا اثرورسوخ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ کیونکہ سعودی آئل ریفائنری سے ہزاروں مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ یقینا حالیہ منظر نامہ پاکستان کے لئے کسی لحاظ سے بھی مفید نہیں خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے سی پیک کی سکیورٹی پر اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اور موجودہ صورت حال سے چین کا کاروباری طبقہ اور سرمایہ کار بھی پریشان ہیں۔