بدقسمتی سے ادھر سال بھر سے قلم کی گھسائی جو ان کالموں میں ہورہی ہے۔تو یہ احساس شدت سے بڑھنے لگا ہے کہ موضوع سیاسی ہو یا سماجی ۔۔۔معاشی ہو یا صحافتی ۔۔۔یہ لفظ یعنی ’’بدقسمتی ـ‘‘کچھ زیادہ ہی تواتر سے آنے لگا ہے ۔ اب یہی دیکھیں کہ خانہ کعبہ اور مدینہ ٔ منورہ جیسے مقامات ِمقدسہ کے ملک سعودی عرب کا ذکر کرتے ہوئے پہلا لفظ ہی قلم سے سرزد ہوا ۔یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ اتوار 13جنوری کو پاکستان کے معتبر ترین انگریزی اخبار میں پورے دو صفحوں پر مشتمل ایک انتہائی تحقیقی رپورٹ سعودیہ میں مقیم پاکستانیوں کی ناگفتہ بہ صورت حال پر شائع ہوئی ہے۔کم از کم تین سو پاکستانیوں کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمتوں سے برطرفی کے بعد انہیں ایسے کیمپوں میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں وہ ہر طرح کی انسانی ضروریات اور سہولت سے محروم ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ تقریباً ہر دوسرے دن حکومت اور اُس کے وزیر اعظم کی حکومت پر گرجنے ،برسنے والے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور اُن کے بڑبولے خواجہ آصف ، خواجہ سعد رفیق،مشاہد اللہ اور بی بی مریم اورنگزیب ۔ ۔ ۔ شریف خاندان کی ناک پر مکھی تک بیٹھ جانے پر ایوان بالا اور زیریں آسمان پر اٹھالیتی ہیں۔ مگر انہیں بھی ان قابل ِ رحم پاکستانیوں کی حالت زار پر لب کشائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔زرداریوں کی پارٹی کے بارے میں کیا کہا جائے کہ اُن کے نزدیک تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بھٹوخاندان ہے جن کے لئے جیالے دن رات کورس میں قصیدہ گوئی میں مصروف رہتے ہیں۔جہاں تک ہماری برادری کے apologistsکالم نگاروں کا تعلق ہے تو ان کے پر بھی اس موضوع پر لکھنے پر جلتے ہیں۔مجھے احساس ہورہا ہے کہ زبان میں ترشی اور تلخی بڑھ رہی ہے۔مگرحقائق ہی ایسے ہیں کہ جس پر جی تو یہ چاہتا ہے کہ قلم ایک طرف رکھ کے زاروقطار آنسو بہائے جائیں۔انگریزی اخبار کے میگزین میں رپورٹ لکھنے والی فری لانس صحافی نے درجن سے اوپر ایسے پاکستانیوں کے انٹرویوز لیے ہیں جن پر ان دنوں اس مقام ِ مقدسہ میں قیامت صغریٰ برپا ہے۔آزاد کشمیر کے رہائشی افتخار احمد برسوں سے ریاض میں اپنے خاندان سمیت مقیم رہے ۔اور جنہوں نے دہائی اوپر اپنے جوانی کے شب و روز شدید گرمی اور دھوپ میں بار ہ گھنٹے سے اوپر مشقت کرتے گزار دئیے۔بتاتے ہیں کہ ان کے سر پر نہ مستقل چھت ہے،نہ دو وقت کا کھانا ،حتیٰ کہ ان کے پاس اتنے ریال بھی نہیں کہ اپنے گھر فون کال بھی کرسکیں۔ ان کاکہنا ہے کہ2016 میں جس بن لادن گروپ اور سعودی اوگر گروپ سے وابستہ تھے وہ دیوالیہ ہوگئی۔جس سے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوگئے۔سعودیہ میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ جس کے تحت وہ ان کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا تے۔پاکستانی ایمبیسی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے کی کوشش بھی کی مگر سعودیہ عرب میں احتجاج اور دھرنے کی کوئی روایت نہیں کہ جس پر کوئی ادارہ کان دھرے۔ افتخار احمد کا کہنا ہے کہ ان سمیت کم از کم 300ملازمین جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے ،دو سال سے اس انتظار میں ہیں کہ ان کی تنخواہوں اور واجبات کی ادائیگی ہو سکے۔نومبر2017میں کہیں جا کر ان کی شنوائی ہوئی مگر پاسپورٹ پر ایگزٹ اسٹیمپ لگوانے میں بھی ان کو ہفتوں لگ گئے۔افتخار احمد کا کہنا ہے کہ انہیں سعودیہ میں کام کرنے والی جرمن کمپنی سے ملازمت کی پیشکش ہوئی لیکن وہ ویزا کے مسائل کی وجہ سے جا نہیں سکے۔ان کا کہناہے کہ اس وقت جو ملازمتیں مل رہی ہیں وہ مشکل سے پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ کی ہیں جس میں خاندان کی کفالت کرنا کتنا مشکل ہے۔ ایک اور مکہ میں ڈیڑھ سال گذارنے والے پاکستانی اجمل کا کہنا ہے کہ ملازمت کے باوجود اسے اقامہ نہ مل سکا،جس کے سبب وہ گھر سے باہر بھی نہیں جاسکتا تھا ۔اجمل نے بتایاکہ اسے سعودیہ جاکے بہتر روزگار کمانے کے سنہرے خواب دکھانے والے میاں غفور نے اسے بلیک میل بھی کیا۔ یقینا میاں غفور پاکستان اوورسیز منسٹریز سے رجسٹرڈ ہوگا جس کے ذریعے اجمل سمیت پاکستانی سعودیہ جاتے ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے 22سالہ عابد حسین کی بھی یہی کہانی ہے کہ اس نے ڈیڑھ سال ملازمت کی اور صرف پانچ ماہ کی تنخواہ ملی جس سے وہ صرف پاکستان کی واپسی کا ٹکٹ لے سکا۔ بقیہ تنخواہ اور واجبات کے لئے مہینوں ٹھوکریں کھاتا رہا۔اس رپورٹ میں جن پاکستانیوں کی کہانیاں ہیں ان کو کم و بیش انہی آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایک طرف تو ہمارے نئے پاکستان کے بانی تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم یہ دعوے کر رہی ہے کہ سعودیہ سے انہیں 12ارب ڈالر سے زیادہ کی بھری بھرکم امدا د ملنے والی ہے ۔دوسری طرف مستند رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ تعداد میں پاکستانیوں کو ہی ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پچھلے دو سال میں سعودیہ عرب پاکستانیوں کی تعداد میں 41فیصد کمی آئی۔یعنی 2016میں سعودیہ میں ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد 2لاکھ33ہزار 287تھی ۔۔۔جو کم ہو کر اب 77ہزار600رہ گئی ہے۔اگر مختلف الزامات کے تحت سعودی عرب سے نکالے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد دیکھی جائے تو 2012سے 2017کے درمیان 2لاکھ80ہزار پاکستانیوں کو بغیر کسی وجوہ اور ادائیگی کے وطن بدر کردیا گیا ہے۔ایک اور خطرناک رجحان یہ بھی ہے کہ عموماً پاکستانیوں کو افغانیوں اور دیگر ملیٹنٹ تنظیموں سے ملوث کردیا جاتا ہے ۔جن کی ایک بہت بڑی تعداد اس وقت مقدمہ چلائے بغیر جیلوں میں بند ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانہ ان پاکستانیوں کی داد رسی کے بارے میںکبھی ایک بار بھی وہاں کی وزارت خارجہ سے رجوع نہیں کرتا۔ایک زمانہ تھا کہ سعودی عرب پاکستانیوں کے لئے روزگار اور رہائش کے اعتبار سے جنت سمجھا جاتا تھا،کہ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ دوران ملازمت ان کی کم و بیش ہر شب ہی خانہ کعبہ اور حضور کے روضہ مبارک پر گذرتی تھی۔ہمارے سامنے بے شمار مثالیں ہیں کہ اگرہمارے ملک میں ایک بھی مغربی یا مذہبی ملک کا شہری، اگر اس کا تعلق خاص طور پر امریکہ یا سعودیہ سے ہو،اور وہ بڑے سے بڑے جرم کا مرتکب ٹھہرے ،اُسے باقاعدہ ہماری حکومت تمام تر پروٹوکول اور باعزت طریقے سے رخصت کر تی ہے۔۔سو کیا ہمارے نئے پاکستان کے معمار وزیر اعظم ،وزارت خارجہ اور خود سعودیہ میں پاکستانی سفارت خانہ ان ہزاروں غریب،بے بس پاکستانیوں کی داد رسی کے لئے آواز اٹھائے گا؟