سعودی عرب کی فقہ اور طرزِ حکومت سے دنیا کا نقطہ ٔ نظر مختلف ہو سکتاہے۔اس میں کوئی برائی یا حرج کی بات نہیں، حرج کی بات اور برائی مگراس چیز میں ہے کہ کسی کی ذاتی رائے اور رجحان اسے منصفانہ بات کہنے سے ہی روک دے ،برائی اس میں ہے کہ کسی کا تعصب ہی اگر اس کا تجزیہ بھی بن جائے یا اسے انصاف کا گھروندا ہی ڈھا دینے پرہی اکسا ڈالے۔حقیقت یہ ہے کہ وقت پڑنے پر بہت کم لوگ تعصب کا دریا پا ر کر سکنے اور بے انصافی کے طوفان میں ڈٹ کر انصاف کی بات کہنے کا حوصلہ اور توفیق پاسکتے ہیں۔انصاف کاساتھ دینے میں انسانوںنے زیادہ تر جن رکاوٹوں کا سامنا کیا۔ مفاد ، سٹیٹس کو اور رائے عامہ کا خوف ان میں سے زیادہ اہم رہے ہیں۔مصیبت یہ ہے کہ ہم نے انسانوں کو رنگوں ، خطوں ، قبیلوں ، طبقوں اور مفادوں میں بانٹ ڈالا ہے۔ چنانچہ ہر تجزیہ و تحریر اور خود صاحبِ تحریر بھی انہی پس منظروں سے آنک کر قبول یا د رکر دئیے جاتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ اس دوران خود انصاف پر کیا گزری۔ سعودی عرب کے حق یا حمایت میں بات کرنابھی ایک خاص تناظرمیں سوچ کر عین اسی خانے میں رکھ دیا جاتاہے، جس سے سعوی عرب کے پاکستان کے ساتھ مخلصانہ جذبات اور دیرینہ تعلقات یکسر صرفِ نظر ہو کے رہ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کا پاکستان سے تعاون کسی بھی دوسرے دوست یا برادر ملک سے کہیں زیادہ ،کہیں گہرا اورکہیں بے لوث رہا ہے۔ ایسا کہ کسی دوسرے سے تقابل بھی ناممکن۔ پاکستان اور سعودیہ کا ایک تعلق تو ظاہر ہے ، دینی ہے ، اگرچہ یہ ایک تعلق بھی سو تعلقوں پر بھاری ہے۔ ظاہر ہے وہاں موجود مقاماتِ مقدسہ سے کوئی مسلمان کبھی صرفِ نظر نہیںکر سکتا۔اس دینی تعلق کا تذکرہ بھی لیکن سر دست آپ رہنے دیجئے۔بات کر لیجئے ملکِ پاکستان سے ان کے عمومی تعلق کی ،یعنی پاکستانی نقطۂ نظرسے ہم آہنگی اور پاکستان کے مفاد کی۔ پاک چائنہ دوستی کو لفظوں کی شکل دینے کے لیے ہم نے نعرہ تخلیق کر رکھا ہے کہ یہ دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے۔ یقینا چائنہ سے ہمارے دو طرفہ مفاد اور تعلق کا رشتہ ایسا ہی ہے۔ اس دوستی میں مگر کوئی دینی یا روحانی پہلو شامل نہیں۔ بہرحال یہ دوستی خالص مفاد سے ہم آہنگی کی ایک مثال دوستی ہے۔یہ بات کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جدید دنیا میں ملکوں میں دوستی اور دشمنی کا معیاران کے دو طرفہ مفادات ہی ہوتے ہیں۔چنانچہ اسی تناظر میں ہم سعودیہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ویسے تو پاکستان پر سعودی عرب کی محبتوں کا سلسلہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے اور قیامِ پاکستان سے پہلے سے شروع ہو جاتاہے۔ تاریخ نے جسے اپنے سینے میں سب محفوظ کر رکھا ہے ، خواہ وہ قحطِ بنگال کے موقع پر سعودی امداد کا قائدِ اعظم تک پہنچنا ہو یا سعودی شاہ کے ذاتی اثر و رسوخ سے تحریکِ پاکستان کے وفد کی اقوامِ متحدہ تک رسائی کا معاملہ۔گانگریسی وفد جس کے سامنے رکاوٹیں پیدا کر چکا تھا اور سعودی اثرو نفوذ کے بغیر جو ممکن نہ تھا۔یہ معاملہ یہی نہیں رکتا، آگے بڑھتاہے۔ ظاہر ہے ، عالمی سطح پر پاکستان کا ایک اہم ترین مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔ جسے پاکستان اپنی شہ رگ قرارد یتاہے۔شاہ فیصل وہ شخص تھے ، جنہوں نے بادشاہ بننے کے بعد اپنی قوم سے اپنے پہلے ہی خطاب میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا تذکرہ کیا۔ ہر عالمی فورم پر سعودی عرب نے ہمیشہ اس موقف پر پاکستان کی ہمنوائی اختیار کی۔ یہ شاہ فیصل ہی تھے ،پاکستان کے دورے پر جنھوں نے پاکستان کی دھرتی کو اپنی سرزمین اور اس کے جھنڈے کو اپنا جھنڈا قرار دیا۔ یہ بھی شاہ فیصل ہی تھے 65ء کے موقع پر جو اپنی فیملی سمیت کعبے میں بیٹھے پاکستان کے حق میں دعائیں کرتے رہے۔ یہی شاہ فیصل 71ء کے سانحہ پر باقاعدہ رو دئیے اور انھوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ہر جنگ کے موقع پر سعودی مفت تیل ہمارے دفاع کی رگوں میں بھی دوڑتا پھرا۔ پاکستان اور سعودیہ میں پہلا باقاعدہ معاہدہ ٔدوستی 51ء میں ہوا۔ سعودی امورِ خارجہ کے ذمے دار شہزادہ فیصل نے اس معاہدے پر دستخط کیے اور اس تاریخی موقع پر یہ کہا،اس معاہدۂ دوستی سے آئندہ نسلیں مستفید ہوں گی۔یہ بات آج بارہ ارب ڈالر لینے کے موقع پر کتنی متعلق اور تازہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ دفاعی حوالے سے پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قابلِ فخر کیا چیز ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے اس کا ایٹمی طاقت ہونا۔اس سلسلے میں باقی سب سعودی تعاون چھوڑ دیجئے۔لیکن کیا ہم 98ء کا وہ موقع بھلا سکتے ہیں، جب امریکہ ہم پر پابندیاں لگا چکا تھا اور پوری دنیا ہم سے رخ پھیر چکی تھی۔تمام عالمی ساہو کارادارے ہمیں قرض تک دینے کے روا دار نہ تھے۔ ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کرنے کی جو گستاخی ہم کر چکے تھے ، اس جرم میں امریکہ ہم سے ناراض تھا اور باقی دنیا امریکہ کی جیب میں پڑی تھی۔ پوری دنیا سے اس وقت کوئی ایک ملک ہمارے ساتھ جو کھڑا ہوا، وہ سعودی عرب تھا۔ پانچ سال کیلئے اس نے تین تین ارب ڈالر سالانہ کا تیل ہماری معیشت کی ڈوبتی نبضوں میں انڈیل دیا تھااور خدا کے فضل کے بعد اسی تعاون اور محبت کے سہارے بالآخر ہم اس کڑے وقت سے نکل آئے۔ سعودیہ کی پاکستان سے محبت کی پہچان کے لیے یہ ایک موقع ہی ایسا ہے کہ بطور پاکستانی جس کی حساسیت سے ہم کبھی انکار نہیں کر سکتے۔ جس کے احسان کا بار ہم اپنی گردنوں سے کبھی اتار نہیں سکتے کہ جب سب چھوڑ گئے تھے تو کوئی ہمارے ساتھ بھی کھڑا تھا ؎ موسم آیا تو نخلِ دار پہ میر سرِ منصور ہی کا بار آیا پھر2014ء کے موقع پر ڈیڑھ ارب ڈالر انھوں نے جناب ڈار کو یا نواز شریف کو نہیں ،پاکستان کو دیا تھا۔ جس میں سے آدھے انھوں نے گرانٹ میں بدل دئیے اور باقی آدھے ہم نے کب ادا کیے ، اس پر کسی کے پاس کوئی ریفرنس ہو تو ازراہ ِکرم وہ اس خاکسار کو بھی مطلع فر ما دے۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا ، کہ اب پھر سعودیہ ہی وہ پہلا ملک ثابت ہوا ہے ، جس نے پاکستانی معیشت کی دگرگوں بد حالی کا احساس کیا۔ مجموعی طور پر 12ارب ڈالر کا بیل آوٹ پیکج جب سے ہمیں میسر آیا ، تھوڑی سی اپنی سانس ہمیں ہموار ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ہے۔لیکن افسوس ہموار سانس کا پہلا وار بھی ہم اپنے محسن ہی پر کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قدرتی آفات کے موقعوں پر سعودی امداد کسی بھی ملک سے ہمیشہ زیادہ اور بر وقت رہی ہے۔ سعودی عرب کبھی ہمارے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیتا ، الا یہ کہ خود ہمارے لوگ اپنی مشکلات میں سعودیہ سے تعاون کے طلبگار ہوں۔ سعودیہ میں غلطیاں بھی ہوں گی، ہم میںبھی ہیں ، سبھی میں ہوتی ہیں۔ زمیں پر فرشتے نہیں بستے، مثلاً اظہارکی پابندی کو سعودیہ کی سب سے بڑی خامی شمار کرنا چاہئے۔ اگرچہ خود اظہارکی اپنی کئی برائیاں ہیں۔ ان پر بات بھی ہونی چاہئے۔ غلطیوں کی نشان دہی ہونی چاہئے۔ ایک بات مگر ہمیں ضرور ملحوظ رکھنی چاہئے کہ دوستوں کے بغیر زندگی نہ افراد سے بسر ہوتی ہے اور نہ ملکوں سے اور یہ کہ دوست بنانے مشکل ہوتے ہیں اور گنوانے بہت آسان۔باقی سعودیہ سے تعلق کا یہ مطلب بھی نہیں کہ باقی سب سے بگاڑ لی جائے۔ نہ ایسا کبھی سعودیہ نے ہم سے چاہا۔