واقعہ تو یہ ہے کہ ہم انتخابات سے ڈسی ہوئی قوم ہیں۔ ملک کے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک ہی ٹوٹ گیا۔ دوسرے عام انتخابات ہوئے تو گیارہ سالہ فوجی آمریت مسلط ہو گئی اور منتخب سابق وزیر اعظم کو پھانسی دے دی گئی۔ تیسرے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے مگر نہ اسمبلی چل سکی نہ وزیر اعظم‘ دونوں کو گھر بھیج دیا گیا پھر مسلسل چار انتخابات ہوئے اور چاروں بار حکومتوں کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ بار بار کیوں ہوا؟ تاکہ عام آدمی اور اس کے ووٹ کی حکمرانی قائم نہ ہو سکے۔ خدا خدا کر کے یہ دوسری حکومت ہے جو اپنی مدت مکمل کر سکی ہے اور ایک بار پھر ملک میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ غالب نے کہا تھا: پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں تو ہم ’’انتخابات گزیدہ‘‘ قوم ہیں۔ چنانچہ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی دل بدلنے اور اندیشوں میں ڈوبنے لگتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ چونکہ دو حکومتوں نے جیسے کیسے سہی اپنی مدت پوری کر لی ہے تو ایک اعتماد سا بھی ہے کہ اب تک خیر رہی ہے تو آئندہ بھی خیریت ہی رہے گی۔ ویسے بھی سیاسی جمہوری منظر نامہ بدل چکا ہے۔ پہلے جیسا نہیں رہا۔ ماضی کے تجربات سے منفی قوتوں نے بھی سبق سیکھا ہے اور انہوں نے بھی جو جمہوریت کو ڈی ریل کر کے اپنا الو سیدھاکرتے رہے ہیں طیارے کی پراسرار تباہی ہو یا پکڑ دھکڑ کے خوف سے خود اختیار کردہ جلا وطنی۔ انجام ایسا بھی نہیں کہ عبرت نہ پکڑی جائے اور سبق نہ سیکھا جائے اب اصل مسئلہ خود سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ملک اگر بار بار آمریت کی گود میں جاتا رہا اور اسمبلیوں کو فارغ کر کے وزیر اعظم صاحبان کو گھر بھیجا جاتا رہا تو ذمہ داری ان حکومتوں اور سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ جنہوں نے گڈ گورننس کی نہ صرف کوئی مثال قائم نہیں کی بلکہ باہمی کھینچا تانی اور لپا ڈگی سے اسمبلیوں کو بھنگڑ خانہ بنا دینے کا تاثر دیا اس لیے جب بھی منتخب حکومت کی چھٹی کی گئی عوام نے سکھ کا سانس لیا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ آئندہ انتخابات جن کے انعقاد کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی ہے اور نگران وزیر اعظم کے نام پر بھی اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ دیکھا جائے تو کئی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ نمبر ایک یہ انتخابات اس صورت حال میں ہونے جا رہے ہیں کہ حکومتی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نہ صرف وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے گئے بلکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے تاحیات نااہل قرار دیے جا چکے ہی وہ نہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں اور نہ سیاست ہی کر سکتے ہیں تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم نے اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس کا الزام عدلیہ اور جرنیلوں پر صاف صاف عائد کر رہے ہیں اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کا لب و لہجہ اور تندو و تیز ہو گا جس کے نتیجے میں تصادم اور ٹکرائو کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ عجب نہیں کہ اس صورت حال کی روک تھام کے لیے عدلیہ کو ایک بار پھر سو موٹو اقدام کرنا پڑے۔ اگر ایسا ہوا تو انتخابات کی گرما گرم فضا میں کوئی ناخوشگوار صورت حال نہ پیدا ہو جائے اداروں کا ٹکرائو‘ متحارب قوتوں میں تصادم خود جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک فال نہیں۔ لیکن یہ بھی ہماری سیاست کا المیہ رہا ہے کہ ملکی اور قومی مفادات کے مقابلے میں ذاتی اور سیاسی مفادات ہی کو ترجیح دی جاتی رہی ہے اسی خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ رویے ہی سے جمہوریت کی منزل کھوٹی ہوتی رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان انتخابات میں ’’متاثرین عدلیہ‘‘ ذمہ دارانہ اور وطن پرستانہ رویے کا اظہار کرتے ہیں یا انتخابات کی غیر معتدل فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی توپوں کے دہانے بدستور کھلے رکھتے اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے کسی طرح بھی خوشگوار نہ ہو گا۔ نمبر 2انتخابات کے ماحول کو پرامن اور منصفانہ رکھنے کی بڑی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ الیکشن کمشن کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ ہر طرح کے دبائو اور بیرونی اثرات سے آزاد انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے یہ بھی ہمارے ملک کی بدنصیبی رہی ہے کہ ہمارے انتخابی نتائج کی ساکھ اور اس کا اعتبار بالعموم مشتبہ رہا ہے۔ یہ بات نہایت دعوے سے کہی جاتی ہے کہ ملک میں اب تک صرف ستر میں یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے منصفانہ انتخابات کرائے، ویسے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ پھر کبھی ملک میں ہوئے ہی نہیں۔ ہر چند کہ یہ دعویٰ بھی ان معنوں میں مشکوک ہے کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے غنڈوں کے آگے الیکشن کمیشن بھی بے بس ہی رہا لیکن عوامی لیگ کی مقبولیت نے اس کی جیت کو معتبر بنا دیا۔ اگلے انتخابات جو بھٹو حکومت نے کرائے‘ دھاندلی کے ملک گیر الزام کی نذر ہوئے۔ اور پھر بعد کے انتخابات میں بھی ان ہی الزامات کی صدائے بازگشت سنی گئی۔ عمران خان کا دارالحکومت میں دھرنا بھی دھاندلی کے الزام اور اسی کا ردعمل تھا جس نے اسلام آباد کی زندگی کے معمول کو بہت دنوں تک معطل کیے رکھا اس پس منظر میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری پرامن انتخابات کے سلسلے میں کتنی اہمیت کی حامل ہے‘ غالباً اسی پر مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اس شہر میں انتخابات کیا تھے ایک مذاق تھے۔ گو صورت حال بدل چکی ہے لیکن ’’عادتیں‘‘ یک لخت نہیں بدلتیں جو پارٹی طاقت سے اپنا مینڈیٹ منواتی رہی ہے اس پہ سختی سے کنٹرول بھی ضروری ہے۔ نمبر 3ملک میں انتخابی نتائج کو خوش دلی یا بے دلی سے قبول کرنے کی بڑی بھلی روایت بڑی حد تک پڑ چکی ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی پارٹیوں کو ابھی سے یہ طے کر لینا چاہیے اور صدق دل سے فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اگر انتخابات فی الواقع منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ماحول میں منعقد ہوتے ہیں تو نتائج چاہے ان کے خلاف ہی آئیں وہ کھلے دل سے قبول کریں گی۔ نیز ووٹ کے تقدس کو کسی صورت بھی پامال نہیں کریں گی۔ ووٹروں کو ہر قسم کے دبائو لالچ اور ترغیب و تحریص سے آزاد رکھ کر محض پارٹی منشور اور پارٹی پروگرام کے ذریعے ان کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کریں گی۔ پنجاب میں برادری سسٹم ‘ سندھ میں وڈیروں کے اثرات بلوچستان میں سرداری نظام اور کراچی میں لسانی عصبیت انتخابات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام کے یہ وہ ناسور ہیں جنہوں نے جمہوری عمل کی صحت و افادیت کو مشکوک بنا رکھا ہے اور یہ بات کہی جاتی ہے کہ قومی انتخابات کے یہ وہ عیوب ہیں جن کی وجہ سے عوام کی اکثریت کا حقیقی فیصلہ سامنے نہیں آ پاتا۔ جمہوری قیادت کا انتخاب جب تک خالص میرٹ پر نہیں ہو گا جمہوری نظام بے برکت ہی رہے گا۔ اس بات میں بڑا وزن ہے اس معاملے میں عوام کی تربیت کرنا بھی سیاسی جماعتوں کا کام ہے لیکن پریشانی تو یہی ہے کہ جو پارٹیاں ان ہی عوارض اور ’’بیماریوں‘‘ کو ایکسپلائٹ کر کے ووٹ بٹورتی ہیں وہ خود کو اس سے کیسے باز رکھیں گی۔ یہ کام اصل میں سول سوسائٹی‘ ذرائع ابلاغ اور خود الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ عوام کے ہر طبقے میں خواہ وہ شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں یا دیہی ‘ مختلف طریقوں سے (مثلاً اشتہاری مہم کے ذریعے) یہ شعور پیدا کریں کہ وہ ووٹ کا استعمال ہر عصبیت‘ دبائو اور ترغیب و تحریص سے بلند ہو کر کریں۔ جمہوریت سعی و خطا(Trial and error)سے تبدیلی اور تغیر کو روبہ عمل لانے کا نام ہے یہ اس صورت میں بہتری کی امید دلاتی ہے کہ عوام اور سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے۔ عوام کے دیے گئے ووٹوں کے نتائج حسب منشا نہ آئے تو وہ آئندہ انتخابات میں اپنا فیصلہ بدل دیں گے اور عوامی فیصلے کی تبدیلی سے شکست خوردہ جماعت اپنی اصلاح کرنے پر مجبور ہو گی۔ لیکن ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کے فقدان نیز وہ اسباب جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا‘ عوام اپنی رائے کو مشکل ہی سے بدلتے ہیں۔ اور بدلتے ہیں بھی تو یہ عمل سست روی کا شکار رہتا ہے۔ سیاسی سطح پر تبدیلی تو آتی ہے لیکن خاصے نقصان کے پہنچنے اور بہت کچھ برباد ہو جانے کے بعد۔ خدا کا شکر ہے کہ ان انتخابات میں ایک موثر ’’تھرڈ آپشن‘‘ بھی عوام کو میسر ہے یہ تیسری چوائس اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ پہلے دو آپشن جنہیں بار بار آزمایا گیا‘ عوامی توقعات پر پورے نہ اترنے اور ان کی طرف سے مایوسی ہی نے تیسرے امکان کی راہ ہموار کی۔ ابھی سے یہ پیش گوئی آسان نہیں کہ آئندہ حکومت کس کی بنے گی۔ لیکن تبدیلی کی خواہش شدید ہے اور قومی سطح پر جو اتھل پتھل مچی ہوئی ہے اس سے بھی امید بندھتی ہے کہ اس بار کے انتخابات ملکی مستقبل کے لیے بہت نتیجہ خیز ہوں گے۔ خدا کرے’’انتخابات گزیدہ‘‘ یہ قوم ان انتخابات کو اپنی نجات کا ذریعہ بنا سکے کہ آخری فیصلہ تو بہرحال ان ہی کے ہاتھوں میں ہے!