امام احمد بن حنبلؒ بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا کا نام حنبل بن بلال تھا۔ اس لیے لفظ حنبل آپ کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ آپ نسلی اعتبار سے عرب تھے۔ آپ کے دادا اور چچا نے عباسیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ حکام کو تازہ ترین حالات سے باخبر رکھیں۔ ایک بار حاکم نے آپ کے چچا سے پوچھا ’’تم نے آج کی خبریں کیوں نہیں بھیجیں؟ میں اپنے بھتیجے احمد کے ہاتھ ساری خبریں آپ کو بھیج چکا ہوں۔ چچا حیران تھا کہ خبریں حاکم وقت کے ہاتھ کیوں نہیں پہنچیں۔ جناب احمد بن حنبل کو حاکم کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ نوعمر تھے۔ آپ سے استفسار کیا گیا تو آپ نے کہا کہ میں نے تو وہ خبریں پانی میں پھینک دیں۔ احمد بن حنبلؒ کی اس بے باکی پر چچا اور حاکم دونوں حیران رہ گئے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے علم حدیث کی تکمیل کے سلسلے میں جو آلام و مصائب برداشت کیے وہ قیامت تک اہل طلب کے لیے سرمایہ ہیں۔ آپ عالم شباب میں تھے تو ایک دفعہ امام شافعیؒ تشریف لائے۔ آپ نے چاہا کہ شیبان راعی کو ان کی کم علمی سے آگاہ کریں۔ امام شافعیؒ نے منع کیا مگر آپ نہ مانے اور شیبان راعی سے سوال کر بیٹھے ’’اگر کسی شخص کی پانچ نماز قضا ہوجائے یا یاد نہ آئے کہ کون سی نماز قضا ہوئی ہے تو کیا کرنا چاہیے؟ شیبان راعی جذب و مستی میں تھے کہنے لگے ’’احمد! ایسے شخص کا دل اللہ کی یاد سے غافل ہے۔ لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے دل کو سزا دے۔ پھر اسے چاہیے کہ پانچوں نمازیں ادا کرے‘‘۔ احمد بن حنبلؒ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ امام شافعیؒ نے فرمایا’’میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ شیبان راعی کو مت چھیڑو۔ یہ منزل عشق کے مسافر ہیں‘‘۔ آپ ایک ایسے بزرگ کی خدمت میں حاضری دینے لگے جو ہمہ وقت یادِ الٰہی میں غرق رہتے تھے۔ احمد بن حنبلؒ کی اس کیفیت کو دیکھ کر ایک دوست نے کہا ’’احمد تم ایک ایسے شخص کے پاس جاکر اپنا وقت کیوں برباد کرتے ہو جو فقیہ ہے نہ محدث؟ حضرت احمد بن حنبلؒ نے فرمایا’’تم اس راز سے بے خبر ہو۔ علم کا جسم میرے پاس ہے مگر علم کی روح ان بزرگ کے قبضے میں ہے۔ میں اسی روح کی تلاش میں وہاں جاتا ہوں اور وہ روح معرفت الٰہی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ آپ نے اپنے علم کو خلیفہ وقت کی نوازشات سے محفوظ رکھا۔ اہل ثروت کے عطیوں سے اجتناب برتا۔ آپ نے علم حاصل کرنے کے لیے شدید مشقت اٹھائی۔ ایسا بھی وقت آیا کہ کئی ایمان والوں کے سینوں میں دنیا کی تحریصات نے شگاف ڈال دیئے۔ عقلیں … مادے سے ٹھوکر کھا کر لڑکھڑانے لگیں، پھر وہ وقت آیا کہ عباسیوں کے عہد میں ایک جماعت نے کھلے عام اعلان کردیا کہ قرآن مخلوق ہے۔ اسے تاریخ میں ’’فتنہ خلق قرآن‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہارون الرشید کے بعد جب مامون کا دورِ خلافت شروع ہوا تو اس نظریئے کے پرچارک عروج پکڑنے لگے۔ مامون کے مصاحبوں میں ان کی اکثریت تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ عالم جو قرآن کو مخلوق نہ قرار دے اسے سرکاری طور پر جاہل قرار دے دیا جاتا۔ اسے زنداں کا اسیر بنادیا جاتا۔ کوڑے برسائے جاتے۔ پھر وہ وقت آگیا کہ امام حنبل اکیلے رہ گئے اور سب طاقت رائج الوقت کے ہمنوا ہوگئے۔ اس پر آپ کے جسم پر تازیانوں کی اس قدر بارش ہوئی کہ آپ خون میں نہا گئے۔ آپ بے ہوش ہوجاتے… مگر جب ہوش آتا تو کہتے ’’قرآن مخلوق نہیں ہے‘‘۔ ڈیڑھ سال آپ پرتشدد ہوتا رہا۔ مگر آپ استقامت کی راہ پر گامزن رہے۔ جب آپ کو آزاد کیا گیا تو آپ زخموں سے لہولہان تھے۔ تشدد سے ہڈیوں پر بھی کوڑوں کے نشان ابھر آئے تھے۔ پورا بدن شکستہ تھا۔ جب آپ کا وقت مرگ قریب آگیا تو آپ نے خاموشی اختیار کرلی۔ سخت ترین جسمانی اذیتوں نے آپ کی صحت کو تباہ کر ڈالا تھا۔ ایسے میں جب بھی آپ کے ہونٹوں پر جنبش ہوتی تو ایک ہی دعا مانگتے ’’اے اللہ! ہر شے تیرے قبضہ قدرت میں ہے۔ تو ہر شے پر قادر ہے۔ تو مجھ سے مت پوچھ کہ کیا طلب کرنا ہے؟‘‘ پورا بغداد سوگوار تھا۔ شاگرد رو رہے تھے۔ اہل خانہ شدت غم سے نڈھال تھے۔ خلیفہ متوکل کے مخبر اسے پل پل کی خبر دے رہے تھے۔ عیادت کے لیے آنے والے اس قدر تھے کہ بازاروں کے راستے بند ہوگئے۔ پھر کسی نے اہل بغداد کے کانوں میں کہا ’’تمہارا محبوب دنیا سے رخصت ہوگیا‘‘۔ خبر کیا پھیلی یوں لگا جیسے کچھ دیر کے لیے کائنات تھم گئی۔ جذبوں کے بند ٹوٹ گئے۔ ایسا گریہ کہ پورا بغداد ماتم کدہ بن گیا۔ مامون سے معتصم … اور معتصم سے واثق تک تمام بادشاہوں کا ذکر کیا گیا۔ آپ کی ایک ایک مصیبت کا بیان ہوا پھر ہجوم نے چیخ کر کہا ’’تیرے پاک جسم کو مشق ستم بنانے والے کہاں گئے؟ زمین کے نیچے کیڑے ان کی ہڈیوںمیں سوراخ کر رہے ہوں گے۔ ان کے مقبرے ابابیلوں کے مسکن ہیں۔ کوئی فاتحہ خواں نہیں … کوئی چراغ روشن نہیں اور وہ جو ستایا گیا ؟ اس کے نام لیواگِنو۔ اے جابرو! انسانی سروں کا شمار کرو۔ یہ معرفت کے شہنشاہ کا جنازہ ہے۔ دلوں کا فرماں رواں ایسے رخصت ہوتا ہے‘‘۔ خلیفہ متوکل حیران و پریشان کھڑا انسانوں کے گزرتے ہوئے سیلاب کو دیکھ رہا تھا۔ انتشار کو روکنے کے لیے پورے شہر کو فوج کے حوالے کردیا گیا۔ مگر جذبوں کا سیلاب کسی قانون کو خاطر میں نہ لارہا تھا۔ یہ اتفاق ہے یا قدرت کا کوئی راز کہ آپ ربیع الاول میں ہی پیدا ہوئے اور اسی مہینے میں رخصت بھی۔ شہزادہ دارا شکوہ… اپنی مشہور تصنیف ’’سفینۃ الاولیائ‘‘ میں لکھتا ہے کہ امام احمد بن حنبل کا جنازہ اٹھا تو بے شمار پرندے آکر جسم مبارک پر سر پٹکتے تھے … ہزاروں آتش پرست مسلمان ہوئے اور ان کی زبانوں پر کلمہ توحید جاری تھا۔