سیدعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخرالزمان محبوب رسول ہیں جنہیں اعزاز واکرام اور بے مثال فضائل عطا ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ آزمائشوں،مشکل آزما صعوبتوں،بے پناہ تکالیف،درد ناک اذیتو ں اور دشمنوں کے بے انتہا مصائب و آلام کے امتحانات سے بھی گزرنا پڑا،مگر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اِن تمام مصائب و آلام کی سختیوں کو اپنی جواں ہمتی، ثابت قدمی، صبر و توکل، عظمت کردار اور اولوالعزمی سے عظیم تبلیغی مقصد کے لئے برداشت کیا۔ اور ان سب تکالیف کے جواب میں عزیمت، ثابت قدمی، عفوودرگزر اور رحم و کرم کی ایسی مثال قائم کی جو انسانی تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتی۔ نبوت کے دسویں سال جناب ابوطالب جیسے شفیق ومہربان چچا اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا جیسی غمگسار رفیقِ زندگی کے سفر آخرت فرما جانے کے کچھ دنوں بعد نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اشاعت اسلام کے لئے بیرون مکہ کا ارادہ فرمایا اور سب سے پہلے نظر انتخاب طائف پر پڑی۔ طائف مکہ کے جنوب مشرق میں ایک پُرُ فضا، زرخیز اورشاداب پہاڑی علاقہ ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ کا یہ سفر اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارث رضی اﷲ عنہ کے ساتھ پیدل فرمایا۔ اور راستے میں آنے والے قبیلوں کو وعظ اور تبلیغ ِ اسلام کرتے گئے مگر کوئی ایمان کی دولت سے فیضیاب نہ ہوا۔ طائف میں عرب کی مشہور قوم بنو ثقیف آباد تھی، سرسبز ملک اور سرد پہاڑ پر رہنے کی وجہ سے ان کے غرور کی کوئی حد نہ تھی۔طائف میں تین بھائی، عبد یالیل، مسعود، اور حبیب حاکم تھے ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پہلے انہی سے ملے اور ان کو اسلام کی دعوت دی۔ان بدبختوں کی بدنصیبی کہ انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ نہایت گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایا ۔نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے خادم کے ہمراہ مختلف بازاروں میں وعظ فرمانے لگے مگر ان سرداروں نے اپنے غلاموں اور شہر کے شریر لڑکوں کو سکھا دیا۔ جہاں سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم وعظ فرمانے لگتے یہ شریر لوگ آپ پر پتھرپھینکتے یہاں تک کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لہو سے تر بتر ہو گئے ۔ بدن مبارک سے خون مبارک بہتا ہوا قدموں تک پہنچا، قدموں سے رستا ہوا نعلین مبارک تک پہنچ گیا۔ جب آپ بیٹھ جاتے تو اوباش آپ کو دوبارہ کھڑا کر دیتے اور پتھر برساتے ۔ ان بدبختوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کا سر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بچاتے ہوئے لہولہان ہوگیا اور وہ بھی زخمی ہوگئے ۔طائف کے یہ اوباش لوگ مسلسل حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لگے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم طائف سے چند قدم کے فاصلے پر ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ۔ آپ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے ۔ اسی درد کی حالت میں ایک دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے ۔ اس دعا کے ایک ایک فقرے سے دردو غم اور حزن ملال کے احساسات کا اندازہ کیاجاسکتا ہے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ الہٰی میں دعا کی: ’’اے اﷲ میں تجھ ہی سے اپنی بے بسی کا شکوہ کرتا ہوں، یہ مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں اس کا شکوہ بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں، اے سارے مہربانوں سے زیادہ مہربان۔ اے میرے پروردگار! آپ مجھے کن کے حوالے کر رہے ہیں، جو مجھ سے دور ہیں، جو مجھ سے منہ چڑھا کر بات کرتے ہیں۔ اے اﷲ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں اور اگر مجھ پر تیرا عتاب نہیں تو مجھے کسی بھی بات کی پروا نہیں۔ خداوندا! تیرا تیری عافیت کا دامن بہت وسیع ہے ۔ اے اﷲ میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھ پر تیرا غضب پڑے یا عتاب نازل ہو، تجھ ہی کو منانا ہے اور اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہوجائے ‘‘۔ اس وقت باغ میں یہ دونوں بھائی موجود تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک غلام عداس جو مذہباً نصرانی تھا کو انگوروں کے خوشے دے کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس نے وہ خوشے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیئے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو زبان مبارک سے بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ادا فرمایا۔اس نے حیرت سے دیکھا اور کہنے لگا: یہاں کے لوگ تو ایسا نہیں کہتے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہاں کے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نینوا کا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہی نینوا جو میرے بھائی مرد صالح حضرت یونس علیہ السلام کا وطن تھا۔ وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگا کہ آپ یونس علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا :’’وہ بھی اﷲ کے نبی تھے اور میں بھی اﷲ کا بھیجا ہوا نبی ہوں‘‘ عداس یہ سنتے ہی جھک پڑا اور اس نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا سر ہا تھ اور قدم چوم لئے اور اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ عداس کے قبول اسلام نے گویا آپ کے زخموں پر مرہم کا کام کیا۔ نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب یہاں سے اٹھے تو قرن الثعالب پہاڑی سامنے تھی، اوپر نظر اٹھائی بادل نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ کیا ہوا تھا، بادل پر نظر کی تو اس میں فرشتہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام جلوہ افروز تھے انہوں نے عرض کی: یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے جو کچھ فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے سن لیا اور انہوں نے جیسا سلوک کیا سب کا سب دیکھ لیا۔ یہ میرے ساتھ ملک الجبال (پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ) موجود ہے ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے ۔ ملک الجبال نے عرض کی: مجھے اﷲ تعالیٰ نے بھیجا ہے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حکم دیں تو مکہ کی دونوں طرف کے پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پیس ڈالوں؟۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرشتوں کو جواب دیا:’’ اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا، میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں، مجھے اﷲ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسا ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اﷲ کی توحید کے قائل اور شرک سے بے زار ہوں گے ‘‘یہاں سے واپسی پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم وادی نخلہ میں قیام پذیر ہوئے جہاں پر جنوں کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے طائف میں دس دن قیام فرمایا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سفر نہایت تکلیف دہ تھا حضرت سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے جب ایک بار پوچھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اُ حد سے بھی سخت دن آیا تھا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تبلیغ اسلام میں آنے والی تکالیف میں سب سے بڑھ کرتکلیف مجھے طائف کے سفر میں دی گئی۔ مگر اس سفر طائف سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ کے لیے انتہائی کٹھن اور مشکل حالات بھی آئیں تو اﷲ کی رضا کے لئے خندہ پیشانی اور ثابت قدمی سے برداشت کرنے چاہیِں۔ اپنے سخت مخالفین کے لئے بھی خیرخواہی کو خواہاں ہونا چاہیے اور طاقت کے باوجود اس کا درست استعمال بھی اس سفر کا ایک سبق ہے ۔ ہمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سفر ِطائف سے صبر و ضبط، تحمل و برداشت اور استقلال کا درس ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر ہم سچے بھی ہیں تب بھی مخالفین کے ساتھ فراخ دلی اور وسعت ظرفی کے ساتھ مقابلہ کریں اس توکل اور امید پر کہ پروردگار ہماری محنت ضائع نہیں فرمائے گا اور اس کا ثمر ضرور عطا فرمائے گا۔ (مآخذ ومراجع:ضیاء النبی، رحمۃ اللعالمین، سیرۃ انسا ئیکلوپیڈیا)