ماضی کا حقیقت پسندی اور غیر جانبداری سے جائزہ لینا حال اور مستقبل کے لئے بہترین راہنمائی ہے۔ اگر ماضی کا جائزہ بھی حریفوں اور حلیفوں کے پھیلائے ہوئے نام نہاد تحقیقی تجزیوں پر مبنی ہو تو سچائی منوں جھوٹ تلے دب کر رہ جاتی ہے۔اگر سقوط ڈھاکہ کا مطالعہ کیا جائے تو چند باتیں زبان زدعام ہیں کہ جنرل ایوب خان کی آمرانہ پالیسی نے فاصلے اور بدگمانی بڑھائی۔پاکستانی نوکر شاہی کا رویہ انگریز شاہی افسران کا سا تھا۔ایوب خان کی دفاعی پالیسی بالکل غلط تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کی ترقی خوشحالی اور عسکری برتری سے کیا جائے گا مغربی پاکستان کی خوشحالی میں بنگالی پٹ سن کا کردار ہے۔اردو اور بنگالی زبان کا جھگڑا زور پکڑ گیا۔مشرقی پاکستان کی کل آبادی مغربی پاکستان کی ساری آبادی سے زیادہ تھی۔مشرقی پاکستان کی سیاسی نمائندگی کا باضابطہ اور منصفانہ نظام کا فقدان تھا۔سقوط ڈھاکہ 16دسمبر 1971ء کی سازشی پاک بھارت نام نہاد جنگ میں فوج نے بنگالی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے اور لاکھوں بنگالیوں کو قتل کیا اور خواتین کا ریپ کیا۔نوے ہزار پاکستانی فوجی بھارت کے قیدی بنے۔وغیرہ وغیرہ ہندوستان کی برطانوی راج سے آزاد ی کے بنگالی راہنما سبھاش چندر بوس کی نواسی کی بیٹی سرمیلا بوس کی آکسفورڈ‘ لندن سے شائع ہونے والی کتاب بعنوان ’’1971ء کی جنگ کی یادیں او اموات کی تعداد‘‘ میں پاک فوج پر بنگالیوں کے قتل عام اور خواتین کے ریپ کی فرضی کہانیوں کو تحقیقی حقائق اور شواہد سے جھٹلایا ہے۔بھارت کے موجودہ ہندو انتہا پسند وزیر اعظم نریندرا مودی نے اپنے ڈھاکہ کے سرکاری دورے پر فخریہ انداز میں دنیا کو بتایا کہ اس نے مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی یا آزادی کے لئے مکتی باہنی کے ورکر کے طور پر کام کیا تھا۔ جہاں تک معاملہ بنگالی زبان اور کلچر کا ہے تو یہ بنگالی زبان تحریک فقط مشرقی بنگال میں تھی اور اس تحریک کا مرکز بھارتی بنگال تھا جہاں ہندی زبان کے خلاف بنگالی زبان و کلچر کی حفاظت اور فروغ کوئی تحریک نہیں تھی تقسیم ہند سے قبل متحدہ بنگال تھا جس میں مشرق و مغرب بنگال کے علاوہ آسام‘ بہار، اڑیسہ بھی شامل تھے، مگر تقسیم ہند سے تقریبا 1سال قبل برطانوی لاڈلے بیورو کریٹ عزیز احمد کو متحدہ بنگال میں ڈی سی لگایا گیا جس نے ہندو اور مسلم بنگال کی تقسیم در تقسیم کو ممکن کیا۔ یاد رہے کہ تقسیم بنگال 1905ء اور اردو ہندی جھگڑا آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا سبب نہ تھا۔ بعد ازاں عزیز احمدمشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری تعینات ہوئے اور انہون نے مشرقی پاکستان میں برطانوی افسر شاہی کے طوراطوار اور ٹھاٹھ باٹھ کی روایت کو بحال رکھا۔عزیز احمد نے اثرورسوخ کا یہ عالم تھا کہ یہ امریکہ میں پاکستانی سفیر اور وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل بیک وقت تھے۔انہوں نے اپنے ہم مذہب قادیانی سابق وزیر خارجہ ظفر اللہ خان اور ایم ایم احمد وغیرہ کی اشیر باد سے ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کے دور میں وزیر خارجہ بنوایا اور بعدازاں بھٹو کے دور حکومت میں خود وزیر خارجہ پاکستان بن گئے۔ بدقسمتی سے ایوب خان کے دور میں سیاسی انتظامی دفاعی معاشی اور خارجی پالیسی پر مذکورہ قادیانی افسروں کا تسلط رہا ہے جس کے باعث غیر متوقع مسائل نے جنم لیا۔ بھٹو کو عوامی ہیرو بنایا گیا۔بھارت نے اپنی رسوائے زمانہ نئی انٹیلی جنس ایجنسی را RAWبنائی جس نے غیر سرکاری عسکری تنظیم مکتی باہمی بنائی اور سقوط ڈھاکہ کو ممکن بنایا ۔قرائن اور شواہد سے یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ مشرقی پاکستان میں غیر مسلم یعنی ہندو آبادی کثیر تعداد میں تھی اور انہوں نے شعبہ تعلیم میں نصاف نظام اور انتظام پر اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا ۔کیا مذکورہ بالا حقائق کے باوجود بنگالی مسلمان علیحدگی چاہتے تھے۔ اس ضمن میں پاکستانی بیورو کریٹ مسعود مفتی کی کتاب ’’چہرے‘‘ حقیقت کو عیاں کرتی ہے ۔ مسعود مفتی 16دسمبر 1971ء سے تین پہلے اور چار دن بعد تک پرل کانٹی نینٹل ڈھاکہ میں ایک ہفتہ مقیم رہے تاکہ بحفاظت مغربی پاکستان منتقل ہو سکیں۔مسعود مفتی لکھتے ہیں کہ 16دسمبر 1971ء سے پہلے ہوٹل کے بنگالی ملازمین کے چہرے پر پشیمانی اور پریشانی نہیں تھی مگر جب جنرل نیازی نے بھارتی کمانڈر جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالے تو تمام بنگالی مسلمانوں کے چہرے لٹک گئے اور زبان پر فقط ایک جملہ تھا کہ ہم یہ سب کچھ نہیں چاہتے تھے ۔سقوط ڈھاکہ کے وقت مشرقی پاکستان میں کل فوجی تعداد تقریباً 30سے 35ہزار تھی باقی متعلقہ ملازمین تھے ۔جنرل اڑوڑہ کا بیان ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے غیر معمولی ہمت جرأت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ قید کے دوران بھی قید کو قبول نہیں کیا بلکہ قید سے ازخود آزادی کی سعی جاری رکھی یعنی سرکاری سرنڈر کے باوجود انفرادی سرنڈر نہیں کیا گیا۔ جنوری 1990ء میں استاد گرامی پروفیسر محمد منور ایک بڑے قومی وفد کے ساتھ پاک بنگلہ یکجہتی کے لئے ڈھاکہ گئے ۔وفد کے ارکان خواجہ ناظم الدین، اے کے فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کے مقابر پردعائے استغفار کے لئے جمع تھے اور اس دوران بنگالی مسلمانوں کا ہجوم وفد کے قریب جمع ہو گیا پروفیسر محمد منور لکھتے ہیں کہ اس دوران ایک بنگالی بزرگ نے بڑی دلسوزی کے ساتھ کہا آپ لوگوں کو پہلے یہ کام کرنا چاہیے۔آپ نے آتے آتے دیر لگا دی چلو پھر بھی آغاز تو ہوا‘‘(بحوالہ مضمون ضیاء الحق اور بنگلہ دیش مشمولہ پاکستان کی روحانی اساس از پروفیسر یوسف عرفان)۔ ٭٭٭٭٭