کل(16 دسمبر کو) پاکستان میں اور بیرون ملک ’’فرزندان ودُخترانِ پاکستان ‘‘نے (16 دسمبر 1971ء کو ) قائداعظمؒ کے پاکستان کو کو دولخت ہونے کا (دِن) سوگ منایا ، جسے سقوطِ ؔڈھاکہ اور "Fall of Dhaka" کہا جاتا ہے ۔ اُس وقت فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے جانشین فوجی آمر ، جنرل محمد یحییٰ خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان تھے اور ’’ قائد ِ عوام‘‘ اور ’’ فخر ایشیائ‘‘ کہلانے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل محمد یحییٰ خان کے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ تھے ۔ معزز قارئین!۔ سقوطِ ڈھاکہ سے ایک سال اور 11 ماہ قبل مَیں نے یکم جنوری 1970ء کو جناب مصطفی صادق (مرحوم) ماشاء اللہ بقید ِ حیات برادرم جمیل اطہر قاضی کا روزنامہ ’’ وفاق‘‘ چوتھی بار "Join" کِیا ۔ اُنہوں نے مجھے ’’مرکزی جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ کے قائد مولانا احتشام اُلحق تھانوی کے دورۂ مشرقی پاکستان کی "Coverage" کے لئے بھجوایا ۔ دونوں صاحبان مجھے الوداع کرنے کے لئے خُود لاہور ائیر پورٹ گئے۔ مَیں نے ڈھاکہ، کومیلا، نوا کھلی ،چٹاگانگ اور مشرقی پاکستان کے کئی شہروں میں مولانا احتشام اُلحق تھانوی کو جلسہ ہائے عام سے خطاب کرتے ہُوئے سُنا اور اُن کی علمی قابلیت اور خُوش الحانی سے بہت متاثر ہُوا۔ مفلوک اُلحال عوام کی ترجمانی کرتے ہُوئے مولانا تھانوی یہ شعر ضرور ترنم سے پڑھا کرتے تھے کہ … سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر ! ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے! مولانا احتشام اُلحق تھانوی مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب اُلرحمن کی قیادت میں عوامی لیگ ؔکے ’’بنگلہ نیشنل اِزم ‘‘ ۔ مشرقی پاکستان کے مولانا عبُدالحمید خان بھاشانی کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی (چین نواز) کے سوشلزم ؔ ، مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے سوشلزم ؔ اور خان عبدالولی خان اور پروفیسر مظفر احمد کی نیشنل عوامی پارٹی ( روس نواز) کے پر بہت تنقید کِیا کرتے تھے ۔ اُنہی دِنوں جنابِ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور مفتی محمود صاحب (مرحوم) کی قیادت میں ’’جمعیت عُلماء ِاسلام ‘‘( ہزاروی گروپ) کا اتحاد تھا۔ مفتی محمود صاحب اور اُن کے ساتھیوں کو ’’شاہین بچے‘‘ اور جنابِ بھٹو کو زاغ ؔ ( کوّا) قرار دے کر مولانا تھانوی علاّمہ اقبالؒ کا یہ شعر پڑھا / گایا کرتے تھے کہ… ہوئی نہ زاغ ؔمیں پیدا بلند پروازی! خراب کر گئی شاہیں ؔبچے کو صحبتِ زاغ! جب مولانا تھانوی نے کسی جلسہ سے خطاب نہیں کرتا ہوتا تھا تو مَیں اُن کی اجازت سے (یا نظر بچا کر ) اِدھر اُدھر چلا جاتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے مسلم لیگ کے لیڈر جناب نوراُلامین کے علاوہ کراچی کے مفتی اعظم ، مولانا مفتی محمد شفیع ، نظام اِسلام پارٹی کے سیکرٹری جنرل مولوی فرید احمد ، جماعتِ اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر مولانا غلام اعظم خان اور دوسرے کئی لیڈروں سے انٹرویو ز کئے۔ مَیں نے ہوٹل سے شیخ مجیب اُلرحمن کو ٹیلی فون کِیا تو اُنہوں نے مجھے دوسرے دن کا وقت دے دِیا لیکن جب مَیں مقررہ وقت پر علاقہ ’’ دھان منڈی‘‘ میں اُن کی رہائش گاہ پر پہنچا تو، عوامی لیگ کے ایک عہدیدار نے مجھے چائے پلا کر ٹرخا دِیا اور کہا کہ ’’ شیخ صاحب گھر پر نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم وہ کب آئے گا‘‘۔ معزز قارئین 18 جنوری1970ء کو ڈھاکہ کے ’’پلٹن میدان ‘‘ میں جماعت اسلامی کاجلسہ عام تھا۔ مولانا مودودی اور جماعت اِسلامی کے دوسرے قائدین ڈھاکہ پہنچ چکے تھے ۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے سارے شہر میں دہشت پھیلا دِی تھی ، گاڑیوں کو جلا یا جا رہا تھا، پلٹن میدان تک جانے والے سارے راستے بند کردئیے تھے ۔ مَیں جلسہ گاہ کی پریس گیلری میں پہنچا تو، جماعت ِ اسلامی کے مقامی قائدین بنگالی زبان میں تقریریں کر رہے تھے ۔ پریس گیلری میں مجھے مغربی پاکستان میں فعال / بہاری صحافی عوامی لیگ ؔپنجاب کے سیکرٹری جنرل میرے دوست محمد بدر منیر مِلے ۔ اُنہوں نے اپنے ساتھی بنگالی صحافی دوستوں کے ساتھ مجھے اپنی حفاظت میں لے کر میری جان بچائی۔ مَْیں نے دیکھا کہ عوامی لیگ کے مسلح لوگ جلسہ گاہ میں گُھس آئے ، اُنہوں نے ہر ٹوپی اور داڑھی والے کو مارنا شروع کردِیا۔ بہت خون خرابہ ہُوا۔ مَیں بچ بچا کر اپنی قیام گاہ (Rocheta Hotel) پہنچ گیا ، مولانا غلام اعظم خان سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اُنہوں نے میرے لئے جیپ بھجوا دِی ۔ جیپ فوجیؔ تھی اور ڈرائیور بھی فوجی ؔ ۔ مَیں مولانا مودودی کی قیام گاہ پر پہنچا تو میری تلاشی لی گئی۔ مولانا صاحب کا چہرہ تمتمایا ہُوا تھا لیکن اُن کے جذبات کنٹرول میں تھے ۔ اُن کے انٹرویو کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ یہ لوگ ( عوامی لیگ والے) پاکستان کو متحد نہیں رکھنا چاہتے تو اُن کی مرضی ہم نے تو بہت کوشش کی؟ ‘‘۔ لاہور سے ڈھاکہ روانہ ہونے سے پہلے مَیں (روزنامہ امروزؔ )سے متعلق اپنے دو دوستوں جناب شفقت تنویر مرزا (مرحوم) اکمل علیمی سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے کئیProfessors" "اور بائیں بازو کے دانشوروں کے نام تعارفی خطوط لے گیا تھا۔ اُنہوں نے میری خوب آئو بھگت کی۔ اُن میں سے تین پروفیسرز مجھے ڈھاکہ سے 98 کلو میٹر دُور "Tangail" میں ’’ نیشنل عوامی پارٹی‘‘ کے سربراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی ’’کسان کانفرنس ‘‘میں لے گئے ۔ سٹیج پر لے جا کر اُنہوں نے مولانا بھاشانی سے میرا یہ کہہ کر تعارف کرایا کہ ’’ اثر چوہان ۔ ’’تنگائل کانفرنس ‘‘ میں شرکت کے لئے لاہور سے آئے ہیں‘‘۔ مولانا نے مجھے گلے لگا لِیا ۔مَیں نہال ہوگیا‘‘۔ معزز قارئین!۔ سقوطِ ڈھاکہ کے کئی اسباب ہیں ۔ سب سے بڑا سبب تو یہ تھا / ہے کہ ’’ 1970ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب اُلرحمن کی عوامی لیگ ، قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر تھی۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسریٹرصدر جنرل محمد یحییٰ خان ، شیخ مجیب اُلرحمن کو وزارتِ عظمی کی دعوت دے چکے تھے ، پھر اُن کی نِیت خراب ہوگئی اور اُن کا ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ’’ بھائی چارا ‘‘ قائم ہوگیا۔ 14 مارچ 1971ء کو کراچی میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوء بھٹو صاحب نے مطالبہ کِیا کہ ’’ مشرقی پاکستان میں اکثریتی پارٹی ’’ عوامی لیگ ‘‘اور مغربی پاکستان میں دوسری بڑی پارٹی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کو اقتدار منتقل کِیا جائے‘‘۔ پھر بھٹو صاحب کا یہ مطالبہ ’’اُدھر تُم ، اِدھر ہم‘‘ کے نام سے بدنام ہُوا ؟۔ مشرقی پاکستان میں بغات کے شعلے بھڑک اُٹھے ، وہاں پاک فوج کی گرفت کمزور پڑ گئی تھی۔ جنرل محمد یحییٰ نے 26 مارچ 1970ء کو مُلک بھرمیں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دِی ، عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے دِیا ۔ 22 نومبر 1971ء کو بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر بھرپور حملہ کردِیا۔ عوامی لیگ کی ذیلی تنظیم ’’ مکتی باہنی ‘‘ بھارتی فوج کی سرپرستی اور کمان میں محب وطن پاکستانیوں کا قتلِ عوام کر رہی تھی۔ صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے 7 دسمبر 1971ء کو ’’متحدہ مخلوط پارٹی ‘‘ کے سربراہ مسٹر نورُالامین کو وزیراعظم پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ مقرر کردِیا۔ بھٹو صاحب نے عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کِیا اور واپسی پر میڈیا کو بتایا کہ ’’ اب دما دَم مَست قلندر ہوگا‘‘۔ پاکستان کے سادہ لوح عوام نے یہ تاثر لِیا کہ امریکہ کا ساتواں بحری ؔبیڑا پاکستان کی مدد کو پہنچنے والا ہے ، لیکن امریکی بحری بیڑا تو نہیں پہنچا لیکن ہمارا بیڑا ؔضرور غرق ہوگیا۔ معزز قارئین!۔ پاکستان دو لخت ہوا تو، "Establishment " نے جناب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا ’’سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان مقرر کردِیا‘‘۔ پھر بھٹو صاحب نے بچے کھچے پاکستان کو ’’ نیا پاکستان‘‘ کا نام دِیا۔ بھٹو صاحب کے بعد مختلف حکمرانوں کا ’’اپنا اپنا پاکستان ‘‘تھا ۔ ہر دَور میں مفلوک اُلحال عوام کے ساتھ کیا ہُوا ؟۔ ہر دَور میں محب وطن پاکستانی قائدین نے پاکستان اور بنگلہ دیش کو پھر متحد ، یا دوستی قائم کرنے کے لئے جو کوششیں کیں وہ کل کے شمارے میں پیش کروں گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر جنابِ وزیراعظم عمران خان اپنا ’’ نیا پاکستان‘‘ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو مفلوک اُلحال عوام کو کیا ملے گا؟۔