فلسطین اسرائیل تنازع ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے اور دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر انصاف کا طلبگار ہے۔ رمضان المبارک کے آخری ایام میں شیخ جراح جیسے پرانے شہر جو مشرقی یروشلم کے پڑوس میں ہے جہاں یہودی آباد کار تنظیموں کے کہنے پر دیرینہ فلسطینی باشندوں کے قانونی طور پر اپنے گھروں سے بے دخلی کی منظوری کے انکشاف کے نتیجے میں یروشلم میں تشدد کی نئی لہر پیدا ہوئی ہے۔ اس واقعے نے 1948 کے نکبہ کے واقعہ کو پھر سے یاد دلا دیا ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کو فلسطین میں اپنے گھروں سے ہجرت کر کے ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ گزین ہونا پڑااور انہی علاقوں پر اسرائیل کے نام سے ایک یہودی مملکت کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ پہلا سوال یہ کہ تشدد کی موجودہ لہر کے فوری محرکات کیا ہیں؟ اور دوسرا اس مسئلہ کے حل کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے؟ مقبوضہ مشرقی یروشلم کے نواحی علاقے شیخ جراح سے جبری طور پر ان فلسطینی خاندانوں کوعلاقہ بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، جنھیں سن 1972 سے آبادکاری تنظیموں کے ذریعہ متعدد عدالتی مقدمات کا سامنا ہے۔ان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ گھر اصل میں یہودیوں کے تھے، لیکن فلسطینی اس کو یروشلم شہر میں صرف یہودی شناخت برقرار رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی سرکاری اسرائیلی پالیسی کی توسیع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہوا ہے کہ زبردستی بے دخلی کے اس قسم کے منصوبے"جنگی جرائم" کے مترادف ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے سن 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں مشرقی یروشلم پر قبضہ کرنے کے سالانہ جشن، جو یوم یروشلم کے نام سے جانا جاتا ہے ، کو منانے نے بھی حالیہ کشیدگی کو مزید بھڑکایا ہے جبکہ ہفتہ 15 مئی یوم نکبہ کا دن ہے جو ان لاکھوں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی یاد میں منایا جاتا ہے جو 1948 میں اسرائیل کے اعلان آزادی کے اگلے ہی دن شروع ہونے والی عرب اسرائیلی جنگ میں گھروں سے جبری بے دخل ہوئے تھے۔ تشدد کے خاتمے کے بین الاقوامی مطالبے کے باوجود، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو نے گزشتہ منگل کے روز غزہ پر "حملوں کی طاقت اور حملوں کی تعداد دونوں میں اضافہ کیا جائے گا" کا اعلان کیا۔ اس طرح ایک دفعہ پھر فلسطین میں انتفادہ کی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ اسرائیل ، جس کا اپنا وجود زبردستی اور ناجائز طریقے سے عمل میں لایا گیا، شروع سے اب تک اپنی سرحدوں میں زبردستی توسیع کر رھا ہے جبکہ 1967، اور 1973 کی جنگوں میں بھی عربوں سے علاقے چھین کر اپنی حدود میں شامل کر لیے جبکہ وہاں پر عرصے سے آباد فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ اسرائیل۔فلسطین تنازع کے حل کے سلسلے میں اہم پیش رفت 13 ستمبر 1993 کا معاہدہ اوسلو ہے جس نے "باہمی شناخت کے لیٹر کے علاوہ ،" عبوری خود مختار انتظامات کے اصولوں کا اعلامیہ بھی پیشکیا اور فلسطینی قانون ساز کونسل (بنیادی طور پر آزادانہ طور پر منتخب پارلیمنٹ) قائم کی جبکہ غزہ سے اسرائیلی فوج کے پانچ سال کے عرصے کے دوران بتدریج انخلا کے لئے پیرامیٹرز طے کیے۔ اگرچہ اوسلو معاہدوں کی کچھ دفعات نافذ العمل ہیں… یعنی غزہ اور مغربی کنارے میں گورننس میں فلسطینی اتھارٹی کا کردار، مگر بہت سی دفعات کو طویل عرصے سے ترک کردیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟ تشدد کی موجودہ لہر جلد یا بدیر رک جائیگی لیکن فلسطین کا مسئلہ کیا حل ہو جائیگا؟ ماضی یہی بتاتا ہے کہ ہر جنگ کے بعد اسرائیل مزید مضبوط ہوا ہے جبکہ عرب بالعموم اور فلسطینی مسلمان بالخصوص کمزور ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین جتنے بھی امن معاہدے ہوئے ہیں ان پر اسرائیل نے عمل درآمد نہیں کیا۔ 1994 سے ہو نیوالے معاہدوں سے لیکر اب تک اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی کی بنا پر فلسطین کے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر حل کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ گزرتے وقت کے ساتھ فلسطینی مسلمان تنہا ہوتے جا رہے ہیں جبکہ آہستہ آہستہ عرب ممالک اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد سرد جنگ کے دور میں فلسطین کا مسئلہ گروپ پولیٹکس کی بھینٹ چڑھ گیا جبکہ فلسطین کے تنازعہ کے حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ مسلمان ممالک کے آپس کے اختلافات ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کے مابین سب سے بنیادی اختلاف مشرقی یروشلم کی حیثیت ہے۔ فلسطینیوں نے مشرقی یروشلم کو اپنی متوقع ریاست کا دارالخلافہ بنانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اسرائیل نے 1982 سے پورے یروشلم پر مکمل قبضہ کیا ہوا ہے اور یروشلم کو اپنا دارالحکومت سمجھتا ہے جسکو عالمی برادری کا بڑا حصہ تسلیم نہیں کرتا البتہ صدر ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کا سفارتخانہ یروشلم منتقل کر کے اپنی حمایت حسب معمول اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دی۔ دوسرا اہم اختلافی نکتہ فلسطینی مہاجرین کی واپس اپنے آبائی علاقوں میں آبادکاری ہے کیونکہ فلسطینی مہاجرین جو 1948 سے لڑی جانیوالی مختلف جنگوں کے نتیجے میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں اب اسرائیل انہیں واپس اْن علاقوں میں آباد ہونے کا حق نہیں دیتا کیونکہ اس طرح اسرائیل کی موجودہ آبادی میں فلسطینیوں کی شرح تناسب میں خاطر خواہ اضافے کا امکان ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک اپنے قبلہ اوّل کی آزادی اور فلسطینی مسلمان بھائیوں کے لیے ایک خود مختار ریاست کے قیام کے لیے ایک ٹھوس اور قابل عمل پالیسی اختیار کریں۔ اور اس طرح ہی اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی امریکہ کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈال کر فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور وہ اپنی خود مختار ریاست کے آزاد شہری کے طور پر رہ سکیں گے۔