مکرمی !عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھاری بیگ سے نہ صرف بچوں کا بدن متاثر ہوتا ہے بلکہ ان کا ذہن بھی بھاری ہوتا ہے۔نشوونما رک جاتی ہے۔انھیں گردن،ریڑھ کی ہڈی اور کندھے میں درد کی شکایات کے علاوہ دوسری بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جا تا ہے۔جس کا براہ راست اثر تعلیم پر ہوتا ہے ۔طلبہ کے بستوںکا وزن کم کرنے کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے صرف روزانہ کے اوقاتِ کار کے حساب سے مخصوص کتابیں ہی اسکول لے کر جائیں۔طلبہ کو کم سے کم ہوم ورک دیا جائے یا پھر اسکولوں میں لاکرز بنا دیئے جائیں،جہاں بچے اضافی کتابیں حفاظت سے رکھ سکیں۔ گزشتہ برس ماہِ دسمبر میں خیبر پختون خوا میں سکول بیگ کا وزن مقرر کرنے کے لیے باقاعدہ ایک بل پیش کیا گیا ہے۔اسے "اسکول بیگز لمی ٹیشن آف ویٹ بل 2020" کا نام دیا گیا ہے۔اس بل کے مطابق نرسری کلاس کے بچوں کے لیے بیگ کا وزن 1.5،جماعت اول کے لیے 2.4،جماعت دوم کے لیے 2.6،جماعت سوم کے لیے 3،جماعت دہم کے لیے 6 جبکہ ہائی سیکنڈری کے طلبہ کے لیے بیگ کا وزن 7 کلوگرام تک مقرر کیا گیا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ کتابیں کم کر کے معیار بڑھانے کی پالیسی پر زور دے اور تعلیم کو زیادہ تخلیقی بنانے کی حوصلہ افزائی کرے۔اس کام کا آغاز سلیبس سے ہونا چاہیے۔ابتدائی عمر کے لیے تو ایک دو کتابیں اور کچھ سٹیشنری کافی ہونی چاہیے۔انہیں کھیل اور تخلیقی صلاحیتیں بڑھانے والی سرگرمیوں میں وقت گزارنے دیا جائے۔تاکہ بچے اچھی طرح آموختہ یاد کرنے کے ساتھ خوشی خوشی سکول بھی جا سکیں۔ (اقبال حسین اقبال،گلگت)