دنیا کی ہرمہذب قوم میں یہ دستور رہا ہے کہ اس کے دو یا زیادہ افراد جب آپس میں ملتے ہیں یا الوداع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو اپنے مخصوص کردہ کلمات ِ تحیت (Greetings) کہتے ہیں۔ یہ کلمات کہنے کا مقصد باہمی الفت و تکریم، خیر اندیشی اور اْنس و مسرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام میں رائج یہ کلمات اپنے معنیٰ کے اعتبار سے ، تحدیدِ زمان و مکان کے اعتبار سے اور اظہارِ جذبات کے اعتبار سے محدود اور غیر جامع ہیں۔ بعض کلمات کسی مفہوم سے خالی اور مہمل ہیں، مثلاً ’’ہیلو‘‘، بعض مہمل تو نہیں ہیں اور اپنا مفہوم ادا کرتے ہیں مگر ان کا معنیٰ کسی خاص وقت کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے اور باقی اوقات اس دعا سے خالی ہوتے ہیں، مثلاً ’’صبح بخیر‘‘ (Good Morning)، ’’شب بخیر‘‘ (Good Night) وغیرہ ، اور کچھ کلمات کا مفہوم ایسا ہے جو انسانیت کے رفیع مقام سے فرو تر ہے ، مثلاً "نمستے " وغیرہ۔ دنیا کی مختلف اقوام میں رائج ان کلماتِ تحیت کا اگر موازنہ کیا جائے تو اسلام کا تعلیم کردہ کلمۂ تحیت اس قدر جامع ہے کہ کوئی دوسرا اس کی جامعیت کو نہیں پہنچ سکتا۔ اسلام کی ہر تعلیم کا مدار ومقصد دائمی فلاح اور خیر وبرکت ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات ابدی، اور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا پیغامِ محبت و رحمت آفاقی ہے ۔ اسلام میں الفت و یگانگت اور جذبہ خیر خواہی کو انسانیت کے لیے عمومی طور پر اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص لازمی قرار دیاگیاہے ۔ جبکہ انفرادیت پسندی اورخلفشار کو ناپسندکیاگیا ہے ۔ مسلمانوں کی مواسات اور باہمی ہم آہنگی و محبت کو ہمہ وقت پختہ اور کامل دیکھنے کے لیے اسلام نے انھیں ہر ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو ’سلام‘ کرنے کی تعلیم وتلقین کی، یعنی ’’السلام علیکم‘‘ اور ’’وعلیکم السلام‘‘ کے کلمات ادا کریں۔ الفاظ کی ترتیب کی تبدیلی کے ساتھ یہ ایک ہی جملہ ہے لیکن جوابی سلام کے الفاظ کی ترتیب میں تبدیلی سے اس جملہ کی دلکشی، جاذبیت اور معنویت میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عربوں کی عادت تھی کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ’’حَیَّاکَ اللّٰہُ‘‘ (اﷲ تم کو زندہ رکھے )’’اَنعِم صَبَاحًا‘‘ (تمھاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے ۔ جب ہم جاہلیت کی تاریکیوں سے اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، اس کی بجائے ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ‘‘ کہنے کی تعلیم دی گئی۔ سلام کی فضیلت ، طریقہ اور آداب سے متعلق تمام امور میں تفصیلی رہنمائی دی گئی ہے ۔ حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور السلام علیکم کہا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کے جواب کے ساتھ ارشاد فرمایا: دس نیکیاں۔ کچھ دیر بعد ایک دوسرے صحابی حاضر خدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسبِ سابق ارشاد فرمایا: بیس نیکیاں۔ کچھ دیر بعد ایک تیسرے صحابی حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی، ابوداؤد) اس حدیث کے پیشِ نظر افضل اور مسنون یہ ہے کہ ’’اَلسَّلاَمْ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اﷲ وَبَرَکَاتْہ ‘‘ کہا جائے اور ادنیٰ درجہ کا سلام ’’اَلسَّلاَمْ عَلَیکْم‘‘ ہے ۔ اس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور ’’رحمۃُ اﷲ‘‘ کے اضافہ پر دس نیکیاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور ’’وبَرَکاتْہ‘‘ کے اضافہ پر دس کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے پر تیس اور ہر ایک کلمہ پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ سلام کو عام کرنا آپس کی محبت میں اضافے اور جنت میں داخلے کا موجب ہے ۔ درج ذیل فرامینِ نبوی اس حوالے سے رہنمائی فرماتے ہیں۔ ’’آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک مومن نہ بن جاؤ اور تمھارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمھارے درمیان محبت قائم ہوجائے گی۔ وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو۔‘‘ (صحیح مسلم)’’ لوگو! رحمن کی عبادت کرو، بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤاور سلام کو پھیلاؤ تو تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤگے ۔‘‘ (ترمذی، ابوداؤد) ’’حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے فرمایا: بیٹے ! جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ تو سلام کیاکرو، یہ تمھارے لیے اور تمھارے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔‘‘(ترمذی) ’’ایک شخص نے عرض کیا:کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور واقف یاانجان، ہر ایک کو سلام کرنا۔‘‘(صحیح بخاری) ’’جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے ، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے ، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرے ۔‘‘ (ابوداؤد) ’’سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے ۔‘‘ (مشکوٰۃ) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ان ارشادات کا صحابہ کرامؓ پر غیرمعمولی اثر تھا۔ حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ اکثر بازار جایا کرتے تھے اور مسلمانوں کو صرف سلام کرنے کے لیے جاتے تھے ۔ جس سے بھی ملاقات ہوتی سلام کرتے ۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ بازار میں ضرورت کی وجہ سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں کو سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے ۔ سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے ، عام طور پر واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتاہے ، لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح) اگربغیر کسی شرعی عذر کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا۔ ہمارے معاشرہ میں جو بعض لوگوں میں رائج ہے کہ سلام کے جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہنے کی بجائے ’’جیتے رہو‘‘، ’’شکریہ، مہربانی جناب‘‘ یا ’’کیا حال ہے ؟‘‘ وغیرہ کلمات کہتے ہیں یہ طرزِ عمل ہر گز جائز نہیں ہے ۔ سلام کا جواب "وعلیکم السلام" سے دے کر اس طرح کے جملے ادا کرنا تو درست ہے مگر محض انہی جملوں کا استعمال سلام کا مسنون جواب ہر گز نہیں ہے ۔ سلام کے آداب میں یہ شامل ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرے ۔ سلام میں پہل کرنے والے کو اﷲ کے قرب اور رحمت کا زیادہ مستحق قرار دیا گیا ہے ۔ (ترمذی، ابوداؤد) نیز اسے کبرونخوت سے بری فرمایا گیا ہے ۔ (مشکوٰۃ) سلام اتنی بلند آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ۔ جواب دینے والا بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے کہ سلام کرنے والے تک پہنچ جائے ۔ چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے ، سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے ، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے ، چھوٹا بڑے کو سلام کرے ۔ (صحیح بخاری) اگر کوئی غائب شخص سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے ، وعلیک وعلیہ السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ (ترمذی) ایک شخص ایک گروہ کو سلام کرے تو اس میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے ، تمام کا جواب دے دینا افضل ہے ۔ (ابوداؤد)اسی طرح اگر آنے والے ایک سے زائد افراد ہوں تو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے ۔