بھارت کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کے بعد سلامتی کونسل نے کشمیر کو ایک متنازع معاملہ قرار دے کر پاکستان کے موقف کی تائید کر دی ہے۔ عشروں پر محیط جدوجہد آزادی عالمی برادری کے سامنے حق خود ارادیت کے مقدمہ کی شکل میں پیش ہوئی ہے جس پر سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین نے اتفاق کیا کہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ نہیں‘ عالمی برادری کو کشمیر کی صورت حال پر تشویش ہے اور وہ خراب ہوتے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نے 13اگست کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے روبرو بھارت کے یکطرفہ اقدام کے خلاف درخواست پیش کرتے ہوئے معاملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی عشروں قبل منظور کی گئی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کا کہا تھا۔ جس پرچین کے سفیر نے سلامتی کونسل کے اعلامیہ سے آگاہ کیا۔ اعلامیہ میں کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کیا گیا اور اسے عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیا گیا۔ اہل کشمیر گزشتہ بہتر برس سے بھارت سے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ کشمیری باشندوں کو جس طرح ایک غیر قانونی دستاویز کے ذریعے زبردستی بھارت کی غلامی میں دیا گیا اس کی حقیقت اب دنیا کے سامنے آ چکی ہے۔ الحاق کی دستاویز کو خود بھارتی حکومت تسلیم کرنے کو تیار ہے نہ اس کا احترام کرنا چاہتی ہے‘ اسے پاکستان‘ کشمیری باشندے یا اقوام متحدہ کیسے درست مان سکتے ہیں۔ پاکستان کے پیش نظر اقوام متحدہ کا کردار اہم رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بات کی ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں عام انتخابات میں تحریک انصاف کو واضح برتری ملی۔ عمران خان نے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے بھارت کو الگ سے پیغام دیا کہ وہ دو ارب آبادی کو جنگ جیسے مہیب خطے سے بچائے اور اچھی ہمسائیگی پر مبنی تعلقات کے لئے پاکستان کی پیشکش کا مثبت جواب دے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت نے اس کا خاطر خواہ جواب نہ دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری کے موقع پر وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اسی موقف کا اعادہ کیا اوردو طرفہ تعلقات میں بہتری‘ جسے بھارت اعتماد سازی کے اقدامات کہتا رہا ہے‘ کے لئے کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کر کے پہل کی۔ بھارت کی بدگمانیاں اس کے باوجود قائم رہیں مگر وزیر اعظم عمران خان نے کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تیسری بار مودی حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ پاکستانی اداروں کو ایسی رپورٹس موصول ہو رہی تھیں کہ بھارت کرتار پور راہداری کھولنے کے حق میں نہیں مگر وہ کروڑوں سکھوں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا لہٰذا وہ کوئی دہشت گردانہ کارروائی کر کے اس کا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتا تھا تاکہ پاکستان کشیدہ تعلقات کے سبب راہداری منصوبہ سے پیچھے ہٹ جائے۔ پلوامہ حملے نے اسے یہ جواز دیا اور کشیدگی کو مزید گہرا کرنے کے لئے اس کے طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہو گئے جنہیں اگلے دن مار گرایا گیا۔ مودی نے اپنی اس شرمندگی کو بدلہ لینے کی مہم کے طور پر انتخابی ایجنڈے میں شامل کر لیا۔ دوبارہ جیتنے کے بعد مودی نے بدلے کی آگ کشمیر پر قبضہ کر کے بجھانا چاہی ہے۔ بھارت کے بانی رہنما اوران کے پیرو کارکشمیر تنازع کی حساسیت سے واقف تھے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے بھارتی رہنما جانتے ہیں کہ جنگ کے ذریعے کشمیر کا فیصلہ ہوا تو وہ آزاد کشمیر کی طرح پاکستان کے حق میں ہو گا۔ کشمیری باشندے بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔ بھارت کے پاس کشمیر کو ساتھ رکھنے کا ایسا کوئی جواز نہیں جسے بین الاقوامی قانون تسلیم کرتا ہو۔ پاکستان کی جانب سے اتمام حجت کے لئے مذاکرات کی ہر کوشش کو بھارت مسترد کرتا رہا ہے۔ ان حالات میں یہ ممکن نہیں کہ تنازع کشمیر کو بھارت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ عالمی طاقتوں کی تجارتی اور معاشی مجبوریاں ان سے غیر منصفانہ فیصلے کراتی ہیں لیکن آخر ان کا بھی کوئی ضمیر تو ہوتا ہے۔ ان ممالک کے عوام جمہوری روایات پر کاربند رہتے ہیں۔ برطانیہ میں فیصلہ ہوا کہ اسے یورپی یونین سے الگ ہونا ہے تو علیحدگی کا عمل طے ہونے لگا۔ انڈونیشیا جیسے نسبتاً پسماندہ ملک کے ساتھ مشرقی تیمور میں مسیحی آبادی نے رہنے سے انکار کر دیا تو سارا عمل پرامن طریقے سے طے پا گیا۔ خود پاکستان اور بھارت کا قیام ووٹ کے ذریعے ہوا جسے بعدازاں خون سے نہلا دیا گیا۔ مودی حکومت کے سامنے آزادی کے وقت خون خراب کی مثال موجود ہے کیا وہ چاہتے ہیں کہ کشمیر کے باشندے عالمی اداروں اور بااثر شخصیات سے مایوس ہو کر ہتھیار اٹھا لیں ؟ 70ہزار کشمیریوں کی شہادت اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیر کے عوام اور پاکستانی اس تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کشمیر کو 70سال پہلے تنازع تسلیم کیا اور اب اس موقف کی تجدید کر کے بھارت کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ریاست پاکستان اور کشمیریوں کے لئے یہ تاریخی کامیابی کا درجہ رکھتی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے مشترکہ پریس کانفرنس میں آئندہ کے لائحہ عمل کے کچھ اشارے دیے ہیں۔ وزارت خارجہ میں کشمیر سیل کا قیام‘ افرادی قوت میں اضافے اوردنیا کے اہم دارالحکومتوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرنے اور فوکل پرسن تعینات کرنے سے عالمی سطح پر تنازع کشمیر کے حقائق سامنے لانے میں سہولت ملے گی‘ ردعمل کمیٹی سلامتی کونسل کے اعلامیہ کی روشنی میں قانونی اقدامات کا تعین کرے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل نے کشمیر کی صورت حال پر غور کر کے تنازع کے پرامن حل کا راستہ وا کیا ہے۔ اہل پاکستان اور کشمیری اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔