بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پاکستان اوربھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی بھارتی کوشش علیحدہ معاملات ہیں۔ بھارت نے کشمیر سمیت جموں اور لداخ کی قانونی حیثیت یکطرفہ طور پہ تبدیل کرکے عالمی معاہدوں سے انحراف کیا ہے جس پہ چین بھی مشتعل ہے۔ جس دن لوک سبھا میں آرٹیکل 370 اور35 اے کی منسوخی کی قرارداد پیش ہوئی تھی، وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ جب وہ جموں اور کشمیر کی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہوتا ہے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور چین کے زیر انتظا م اکسائی چن۔ اکسائی چن کا علاقہ چین کے پاس ہے اور اس پہ ماضی میں بھارت اور چین کے درمیان کئی بار سرحدی تناو پیدا ہو چکا ہے لیکن گزشتہ کئی عشروں سے کوئی سرحدی جھڑپ نہیں ہوئی اور لائن آف کنٹرول مکمل طور پہ پرامن رہی ہے۔اس کے برخلاف پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر کسی آتش فشان کی طرح سلگتا رہا ہے۔دوجنگیں ہم کشمیر پہ لڑ چکے ہیں۔دیکھا جائے تو کشمیر پہ پہلی جنگ ہی ہمارے لئے ثمر مند رہی۔ اس کے بعد ہمارے ہاتھ کچھ نہ آسکا۔ اس بار بھارت نے جو انتہائی قدم اٹھا لیا ہے، اس کے بعد کم سے کم اتنا ضرور ہوا ہے کہ کشمیر جو ماضی میں ہماری عاقبت نااندیش،مصلحت کوش اور خود غرض قیادتوں کی نااہلی کے باعث ایک خوابیدہ مسئلہ یا ڈیڈ ایشو بن گیا تھا، اس بار عالمی اسٹیج کے اس مرکز میں ہے جہاں کبھی فلسطین ہوا کرتا تھا۔ بات تلخ ہے مگر پاکستا ن کے پاس آپشنز محدود ہیں۔ بھارت کو جو کرنا تھا وہ کر گزرا ہے۔ بے شک ہم نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر بڑی کامیابی سمیٹی ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑا ہے؟ اگر بھارت اپنے اس فیصلے کے بعد فوری طور پہ وادی میں احتجاج کو دبانے کے لئے بربریت کا انتہائی مظاہرہ نہ کرتا اور مزید فوجیں نہ اتارتا تو گمان غالب ہے کہ ہمیں یہ کامیابی بھی حاصل نہ ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور وزارت خارجہ اپنے اپنے محاذ پہ بہت اچھا کھیلے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج سلامتی کونسل کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک متنازعہ مسئلہ قرار دے رہی ہے۔ کیا مگر یہ وہ نکتہ نہیں ہے جہاں سے ہم شملہ معاہدے کے وقت پیچھے ہٹ گئے تھے؟دیکھا جائے تو فتح کے نشے میں سرشار اندرا گاندھی کے مقابلے میں دو لخت شدہ بچے کچھے پاکستان کے سرنگوں ذوالفقار علی بھٹوکے پاس کیا آپشن تھا؟جب آپ کا پانچ ہزار میل رقبہ اور ترانوے ہزار سپاہ دشمن کے قبضے میں ہوں تو مزاکرات نہیں ہوتے، سمجھوتے ہوتے ہیں۔سو وہ بھٹو نے کیا۔ اندرا گاندھی نے کمال مہارت سے اسی وقت مسئلہ کشمیر کو ایک عالمی تنازعہ کی فہرست سے نکال کر پاکستان اور بھارت کا سرحدی تنازعہ بنا دیا اور پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ اس معاملے کو عالمی فورم پہ اٹھانے کی بجائے،بھارت کے ساتھ مزاکرات کے ذریعے حل کرے۔کسی تیسرے ملک کو ثالث بننے کی ضرورت نہیں۔ اسی شرمناک شملہ معاہدے کا ہی ثمرہ تھا کہ بھارت کشمیر پہ اقوام متحدہ کی قرادادوں کو چٹکیوں میں اڑاتا رہا۔جب بھی پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی،بھارت نے اسی شملہ معاہدے کو آڑ بنایا اور صاف بچ نکلا۔غور کیجیے کہ اکہتر کی شرمناک شکست نے جہاں ہمارا بدن دو لخت کیا وہیں شملہ معاہدے نے ہمیشہ کے لئے ہمیں کشمیر سے محروم کردیا۔ اگر ہم نے میدان جنگ میں ایسی عبرتناک شکست نہ کھائی ہوتی تو حالات کتنے مختلف ہوتے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شملہ معاہدے کے کئی برس بعد پاکستان کو اللہ نے ایک موقع اور دیا جب مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا تھا اور وہ تاریخی دن اٹھائیس مئی 1998 ء کا دن تھا جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرکے بھارت پہ اپنی طاقت کی دھاک بٹھا دی تھی ۔ اگر نواز شریف چاہتے تو تاریخ میں اپنا نام امر کرسکتے تھے۔ اٹل بہاری واجپائی اگر لاہور دوڑے چلے آئے تھے تو اس کی وجہ صرف ایک تھی کہ پاکستان اب اکہتر والادونیم پاکستان نہیں رہا تھا بلکہ ایٹمی قوت بن چکا تھا۔ نواز شریف بھارت کی اس نفسیاتی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتے تو اٹھا سکتے تھے لیکن مینار پاکستان پہ واجپائی نے جب اپنی بے وزن اور بحر سے خارج نظم ، ہم جنگ نہ ہونے دیں گے پڑھی تو غالباً وہ اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکے اور اعلامیہ لاہور ہوگیا جس کی رو سے شملہ معاہدے کو نئی زندگی مل گئی۔اسی اعلامیے کے بعد ، جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کیا، کارگل کا واقعہ ہوا اور نواز شریف کی چھٹی ہوئی۔ جنرل مشرف بھی بھارت گئے تھے اور چائے کی میز پہ مکہ مار کر پیالیاں بھی اچھالی تھیں لیکن وہ اس لئے تو نہیں آئے تھے۔اس کے بعد نائن الیون ہونا تھا اور مشرف نے پاکستان کو مور سے ڈو مور کرنا تھا۔ اس وقت بھی مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا تھا اور شنید ہے کہ سارا پلان تیار تھا یعنی کشمیر کی تقسیم کا پلان۔ مشرف کو لیکن مہلت نہ مل سکی اور انہیں جانا پڑا۔ مسئلہ کشمیر ایک مردہ مسئلہ بنا دنیا کے ضمیر پہ تازیانے مارتا رہا۔ کوئی اس لاش کو ٹھکانے لگانے کو تیار نہ تھا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کیا اس وقت کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں؟اسی طرح مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا، عورتوں کی عصمت دری جاری تھی، بچے اور جوان لاپتہ ہورہے تھے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کا میڈیا چپ سادھے بیٹھا تھا۔ مجاہدین کے ٹریننگ کیمپ خالی ہوچکے تھے اور ایل او سی کے اس پار بیس کیمپوں میں مکھیاں بھنبھا رہی تھیں۔کئی برس یہ لاوا خاموشی سے ابلتا رہا۔ اہل کشمیر نے جان لیا کہ کوئی ان کی مدد کو آنے والا نہیں۔ تب برہان وانی اور ذاکر موسی نے ہتھیار اٹھا لئے۔برہان وانی کا ابلتا خون اس شدت سے اچھلا کہ چناروں میں ایک بار پھر آگ لگ گئی۔مودی سرکار کو علم ہوگیا کہ یہی آخری وار کا وقت ہے۔اگلے انتخابات میں مودی نے جھرلو پھیر دیا۔ مقبوضہ وادی کی متنازعہ حیثیت ختم کردی گئی۔واد ی میں مزید ایک لاکھ فوج بھیج کر اسے لینڈ لاک کردیا گیا۔فارن پالیسی میگزین چیخ اٹھا کہ کشمیر میں مسلمانوں کی وہ نسل کشی جاری ہے جس کے بعد استصواب رائے، جی ہاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق،کیا گیا تو فیصلہ لامحالہ بھارت کے حق میں ہوگا کیونکہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل ہوچکی ہوگی۔تب تک سلامتی کونسل دہائیاں دیتی رہے گی۔عالمی ضمیر چیختا رہے گا اور دنیا بھر کا میڈیا اسے کوریج دیتا رہے گا۔ ہم نے بس اتنی کامیابی حاصل کی ہے کہ بھارتی مندوب کو سلامتی کونسل میں صحافیوں سے منہ چھپانا پڑجاتا ہے ۔ مودی دنیا بھر میںہٹلر مشہور ہوجاتا ہے لیکن ڈھٹائی کے ساتھ کہتا ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر میں معاشی ترقی کے امکانات کھلیں گے۔ یقینا ایسا ہی ہوگا کیونکہ وادی میں مسلمان شال بافوں کا قتل عام پہلے ہی کیا جاچکا ہے۔بھارتی فوجی زمینیں خرید رہے ہیں اور امبانی اور جندال سرمایہ کاری کررہے ہیں۔