حقوق انسانی کے نام پر امریکہ اور یورپ کا پوری دنیا پر سیاسی و معاشی تسلط قائم ہے اس حوالے سے مذکورہ ترقی پذیر ممالک سے باز پرس بھی کرتے رہتے ہیں اور جی کرے تو اقتصادی پابندیاں بھی لگا دیتے ہیں۔ وطن عزیز بھی ان کی زد میں رہتا ہے بلکہ ان کے بنائے ہوئے ادارے تک مادر وطن کو بلیو، گرے اور بلیک لسٹ کا عندیہ دے کر اپنی برتری کا احساس دلاتے رہتے ہیں جبکہ پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی حقوق انسانی کا داعی چلا آ رہا ہے۔ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی تذلیل ہوئی ہے وہاں پاکستان نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔ دنیا بھر کی مظلوم اقوام کی آزادی اور حقوق کے لئے پاکستان نے ہمیشہ آواز بلند کی اس کا سب سے بڑا ثبوت انسداد دہشت گردی کی عالمی جنگ ہے جس میں پاکستان کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس جنگ میں پاکستان نے جانی و مالی سطح پر وہ قربانیاں دی ہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جو ریاست دوسری اقوام کے حقوق کے لئے بھی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو اور جس میں عالمی امن کے لئے جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہو اس ریاست کے خلاف بھی بڑی قوتیں فورتھ جنریشن وار میں شامل ہوں، یہ بات انہیں زیب نہیں دیتی۔عالمی مالیات پر قابض قوتیں ففتھ جنریشن وار کی صورت میں عراق، لیبیا اور افغانستان کی طرح پاکستان کے پیداواری اداروں پر بھی عملاً قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ فورتھ جنریشن وار کے نقیب یہ وہی طاقتیں ہیں جنہوں نے مذکورہ ممالک کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ وہاں کے موجودہ حکمرانوں کا لوگ نام بھی نہیں جانتے۔ صدام اور کرنل قذافی کے زمانے میں لوگ روزگار کے لئے عراق اور لیبیا جاتے تھے اب وہاں غربت و افلاس کے ڈیرے ہیں۔ مقامی لوگوں کی عزتیں خاک میں مل گئی ہیں فورتھ جنریشن وار کا سیاہ پہلو ہی یہ ہے کہ اس میں سب سے زیادہ نقصان غریب اور متوسط درجے کے لوگوں کا ہوتا ہے اس وار میں سب سے زیادہ اموات بھی مقامی لوگوں کی ہوتی ہے۔ موجودہ وقت ففتھ جنریشن وار کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس کے اجزا ترکیبی کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ جنگ فوجیں نہیں لڑتی، جنگی طیاروں سے حملے نہیں ہوتے بلکہ یہ جنگ بڑی قوتیں اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے لڑتی ہیں جس کے تحت نوجوان نسل کے ذہنوں میں قومیت، مذہب، علیحدگی، فرقہ واریت، آزادی اور کبھی حقوق انسانی کے نام پر اپنی ریاست کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ کبھی ریاستی اداروں کو نشانہ بنا کر ملک کو بدنام کیا جاتا ہے۔ یہ قوتیں کبھی کبھی عزت و غیرت کو بھی مسئلہ بنا کر ریاست کی جڑیں کاٹتی ہیں لیکن اس میں اک بات مشترک ہوتی ہے کہ ان کا عوام کی اکثریت سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا ملک کی بقا و سلامتی سے کوئی واسطہ ہوتا ہے۔ ایسے متحارب گروہ عالمی گماشتوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایک زاویہ نگاہ کے مطابق کچھ قوتیں افغانستان کے توسط سے لسانیت اور قومیت کے نام پر پاکستان کے مخصوص علاقوں میں گوریلا وار کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ اس گھمسان میں وہ مقامی ایجنٹوں، میڈیا، کچھ سیاسی و سماجی تجزیہ نگاروں اور سوشل میڈیا سے کام لینے کی حکمت عملی تیار کریں گی۔ عالمی قوتوں کا یہ اعزاز ہے کہ وہ کمزور نظریاتی ریاستوں یا علاقوں میں عوام کو یہ ثابت کرکے کہ تم پر ڈکٹیٹر مسلط ہیں۔ عوامی بغاوت کے ذریعے اقتدار چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں ان کا دائو لگتا ہے مذہب کے نام پر تحریک چلوا دیتے ہیں۔ ہمیں پاکستان کی بقا و سلامتی کی ڈاکٹرائن کو سمجھنا ہے عسکری حوالے سے معاملے کی سنگینی کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک طویل ترین جنگی سرحدوں میں گھرا ہوا ملک ہے اس کے چاروں طرف بھارت، افغانستان، ایران اور چین ہے جن کی ہمارے ساتھ چھتیس سو کلو میٹر طویل سرحدیں ملتی ہیں۔ پاکستان کو اپنی بقا کے حوالے سے گھمبیر صورت حال کا سامنا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ آج کے دوست کل کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔ مفادات کی دوستی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ پاکستان نے اپنی حفاظت کی حکمت عملی کو اپنی جغرافیائی و نظریاتی کیفیت کو مدنظر رکھ کر بنانی ہے۔ اقتصادی لحاظ سے بھی پاکستان اندرونی و بیرونی سطح پر کئی معاملات میں الجھا ہوا ہے انڈیا، افغانستان، عالمی قوتیں، اسرائیل،ملٹی نیشنل کمپنیاں اور مالیاتی ادارے اسے بھوکی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں فورتھ یا ففتھ جنریشن جنگ کے ذریعے پاکستان مخالف عالمی قوتیں عوام اور ریاستی اداروں میں متنفرپن پیدا کر کے ملک کو خانہ جنگی کی طرف لیجانا چاہتی ہیں۔ پاکستان کی اہم ترین ضرورت ایک قوم کی پہچان تھی افسوس ہم ایک قوم نہ بن سکے بلکہ پنجابی،سندھی پٹھان اور بلوچی بنتے چلے گئے نااہل سیاسی اکابرین اور ناقاقبت اندیش حکمرانوں نے قومی یکجہتی کے جذبوں کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں عالمی تناظر میں اگر ہم پاکستان کا سیاسی،معاشی اور معاشرتی تجزیہ کریں تو آج پاکستان کٹھن مراحل سے گزر رہا ہے جو قوم غربت اور محرومیت کے گرداب میں پھنسی ہو وہ نظریاتی سطح پر استخفاف یا شک و شبہ میں مبتلا ہوتی ہے اسے ورغلانہ آسان ہوتا ہے پاکستان کی سلامتی کے لیے اور عام آدمی کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ہر ایک کی بنیادی ضروریات زندگی کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ہو گا کیونکہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ غربت ہے اور یاد رہے کہ کچھ قوتوں کے لیے بھوکے پیٹ کو قائل کرنا بہت آسان ہوتا ہے حکومت کو اس طرف خصوصی توجہ دینی ہو گی لیکن پاکستان کی سلامتی کے خلاف کسی سمجھوتے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لہذا پاکستان کے خلاف ہونے والے ہر نوعیت کے اقدام پر فوری ایکشن بھی ناگزیر ہو گا اس سلسلے میں کوئی سستی یا کوتاہی ہماری نسلوں سے دشمنی کے مترادف ہو گی۔