اخذوترتیب:ابو حیدر

 

سلطان محمود غزنوی کے دربار میں سائلوں اور درخواست گزاروں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی کہ ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کرنے لگاحضور! میری شکایت نہایت سنگین نوعیت کی ہے اور کچھ اس قسم کی ہے کہ میں اسے برسرِ دربار سب کے سامنے پیش نہیں کر سکتا۔سلطان یہ سن کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور سائل کو خلوت خانے میں لیجا کر پوچھا کہ تمہیں کیا شکایت ہے؟اُس نے عرض کیا حضور! ایک عرصے سے آپ کے بھانجے نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ مسلح ہو کر میرے مکان پر آتا ہے، مجھے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا ہے اور خود جبراً میرے گھر میں گھس کر میری گھر والی کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔غزنی کی کوئی عدالت ایسی نہیں، جس میں میں نے اس ظلم کی فریاد نہ کی ہو لیکن کسی جگہ مجھے انصاف نہ ملا۔ ہر کوئی آپ کے بھانجے کا سُن کر چپ کر جاتا ہے۔ جب میں ہر طرف سے مایوس ہو گیا تو آج مجبوراً جہاں پناہ کی بارگاہِ عالیہ میں انصاف کے لیے حاضر ہوا ہوں۔آپ کی بے لاگ انصاف پروری، فریاد رسی، اور رعایا سے بے پناہ شفقت پر بھروسہ کر کے میں نے اپنا حال عرض کر دیا ہے۔ خالقِ حقیقی نے آپ کو اپنی مخلوق کا محافظ و نگہبان بنایا ہے۔ قیامت میں رعایا اور کمزوروں پر مظالم کے نتیجے میں آپ خدائے قہار کے رو برو جوابدہ ہوںگے۔ اگر آپ نے میرے حال پر رحم فرما کر انصاف کیا تو بہتر ہے ورنہ میں اس معاملے کو منتقم حقیقی کے سپرد کر کے انصاف کا انتظار کرونگا۔سلطان پر اس واقعہ کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار آبدیدہ ہو گئے اور سائل سے کہا:’’تم سب سے پہلے میرے پاس کیوں نہ آئے؟ تم نے ناحق اب تک یہ ظلم کیوں برداشت کیا؟‘‘سائل نے عرض کیا :’’حضور! میں کافی عرصے سے اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح بارگاہِ سلطانی تک پہنچ پاؤں مگر دربانوں اور چوب داروں کی رکاوٹوں نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ آج بھی کس تدبیر سے یہاں تک پہنچا ہوں۔سلطان نے سائل کو اطمینان اور دلاسہ دے کر تاکید کی کہ اس ملاقات اور گفتگو کا کسی سے ذکر نہ کرنا اور اب جس وقت بھی وہ شخص دوبارہ تمہارے گھر آئے اُسی وقت مجھے اس کی اطلاع کر دینا، میں اس کو ایسی عبرت ناک سزا دوں گا کہ آئندہ دوسروں کو ایسے مظالم کرنے کی جرات نہ ہو سکے گی۔سائل نے عرض کیا :’’حضور! مجھ جیسے غریب کے لیے یہ کیسے ممکن ہو سکے گا کہ جب چاہوں بلا کسی مزاحمت کے خدمتِ سلطانی میں حاضر ہو جاؤں اور مطلع کر سکوں؟

سلطان نے یہ سن کر دربانوں کو طلب کیا اور سائل کو ان سے روشناس کرا کے حکم دیا۔ یہ شخص جس وقت بھی آئے، فوراً ہمارے پاس پہنچا دیا جائے اور کسی طرح کی مزاحمت نہ کی جائے!اِس ملاقات کے بعد دو راتیں گزر گئیں مگر سائل نہ آیا۔ سلطان کو تشویش ہوئی کہ نہ معلوم اُس غریب کو کیا حادثہ پیش آیا ہوگا، وہ اسی فکر میں پریشان تھے کہ تیسری رات کو سائل دوڑتا ہوا آستانۂ شاہی پر آ پہنچا۔ اطلاع ملتے ہی سلطان نے فی الفور سواری نکالی اور سائل کے ہمراہ اس کے گھر پہنچ کر اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو سائل نے انہیں بتلایا تھا۔ اُس کے بعد سلطان نے تین کام کیے:1۔ کمرے میں شمع جل رہی تھی۔ سلطان نے شمع گل کر دی اور خود خنجر نکال کر اُس بدکردار کا سر اڑا دیا۔2۔ اس کے بعد شمع روشن کرائی مقتول کا چہرہ دیکھ کر بے ساختہ سلطان کی زبان سے نکلا:’’ الحمداللہ‘‘۔

3۔ پھر سائل سے کہا کہ پانی لاؤ۔ سائل جلدی سے پانی لایا تو سلطان نے پانی پی کر سائل سے کہا کہ اب تم اطمینان سے اپنے گھر میں آرام کرو، ان شاء اللہ اب کبھی بھی تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی، میری وجہ سے اب تک تم پر جو ظلم ہوا خدا کے لیے اُس پر مجھے معاف کر دینا!

یہ کہہ کر سلطانِ محمود غزنوی رخصت ہونا ہی چاہتاتھا کہ سائل نے دامن پکڑ کر عرض کیا :’’حضورِ والا! آپ نے جس طرح ایک مظلوم کے ساتھ انصاف فرمایا حتیٰ کہ اپنی قرابت داری و خون کا بھی خیال نہ کیا، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے اور اجرِ عظیم عنائت فرمائے!‘‘اگر اجازت مرحمت فرمائی جائے تو ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے پہلے شمع گل کروائی، پھر روشن کرا کر مقتول کا سر دیکھ کر ’’الحمداللہ‘‘ فرمایا اور اس کے فوراً بعد پانی طلب فرمایا اس کی کیا وجہ تھی؟سلطان نے ہر چند ٹالنا چاہا مگر سائل کے اصرار پر اسے بتلانا ہی پڑا!سلطان نے کہا:شمع گل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مبادا !روشنی میں اس کا چہرہ دیکھ کر بہن کے خون کی محبت مجھے سزا دینے سے باز رکھے اور ’’الحمداللہ‘‘ کہنے کا سبب یہ تھا کہ مقتول اپنے آپ کو میرا بھانجا بتا کر تمہیں شاہی تعلق سے مرعوب کر کے اپنی خواشاتِ نفسانی کو پورا کرنے کے لیے راستہ صاف کرتا رہا۔ خداوندِکریم کا ہزارہا شکر ہے کہ محمود غزنوی کے رشتے داروں کا اس شرمناک بے ہودگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ شخص میرا بھانجا تو درکنار، میرا رشتہ دار بھی نہیں ہے اور پانی مانگنے کی وجہ یہ تھی کہ جب سے تم نے اپنا واقعہ سنایا تھا میں نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک تمہارا انصاف نہ کر لوں گاآب و دانہ مجھ پر حرام ہے۔ اب چوں کہ میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکا تھا اور مجھ پر پیاس کا شدید غلبہ تھا اس لیے میں پانی مانگنے پر مجبور ہو گیا تھا۔یہ کہہ کر سلطان محمود غزنوی اس کے گھر سے نکل آئے اور اپنے اِس انصاف کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

محمود غزنوی نے جب سومنات فتح کیا تو سلطان محمود غزنوی سومنات کے سب سے بڑے مندر کے اندر داخل ہوا جس میں ہندوؤں کا سب سے بڑا دیوتا بت کی صورت میں پوجا جاتا تھا سومنات کے اس بت کو معجزوں کا دیوتا کہا جاتا تھا اور اسے ناقابل شکست بھی تسلیم کیا جاتا تھا۔سومنات کے مندر میں یہ سب سے بڑا دیوتا اور بت مندر میں معلق رہتا تھا۔بت کو مندر کے بڑے کمرے میں اس انداز میں معلق دیکھ ہر شخص اس کی برتری تسلیم کرلیتااور جو برتری تسلیم نہ کرتا وہ بھی ایک بار سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ یہ گرانڈیل وزنی بتکسی زنجیر، کسی نظر نہ آنے والے سہارے کے بغیر کس طرح فضا میں معلق ہے؟صاف ظاہر ہے کہ اس کے فضا میں معلق ہونے کا کرشمہ دکھا کر اس کی عظمت اور ہیبت کو لوگوں کے دلوں میں بٹھایا گیا تھا۔بہرحال جب سومنات فتح ہوا تو محمود غزنوی مشہور مسلم دانشور البیرونی کے ساتھ بڑے بت کو دیکھنے مندر کے اندر آگیا جب غزنوی مندر میں داخل ہوا تو اس بت کو فضا میں بغیر کسی سہارے کے معلق دیکھ کر چکرا گیا۔محمود غزنوی نے حیران ہوکر البیرونی سے پوچھا:’’یہ کیا ماجرا ہے؟ یہ بت بغیر کسی سہارے کے فضا میں کس طرح معلق ہے ؟‘‘البیرونی نے چند لمحے سوچا پھر ادب سے بولا:’’ سلطان معظم! اس مندر کے چھت کے اس طرف سے چند اینٹیں نکلوادیں۔‘‘سلطان کے حکم پر چند اینٹیں نکالی گئیں۔جب چھت سے البیرونی کی بتائی ہوئی جگہ سے کچھ اینٹیں نکالی گئیں تو سومنات کافضا میں معلق بت یکدم ایک طرف جھک گیا اور زمین سے قریب تر آگیا.البیرونی نے ادب سے وضاحت کی :’’سلطان معظم! یہ ان ہندو پروہتوں اور پنڈتوں کی مکاری ہے ۔یہ بت لوہے کا بنوایا گیا ہے اور مندر کی چھت پر مخصوص جگہ بہت بڑے مقناطیس نصب کیے گئے ہیں۔یہ مقناطیس لوہے کے بت کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور یوں یہ بت ساکت معلق رہتا ہے۔ چونکہ یہ بڑے بڑے مقناطیس مضبوطی سے نصب کیے گئے ہیں اپنی جگہ سے نہیں ہلتے اسی لئے یہ بت بھی فضا میں معلق ہے.جب مندر کی چھت اکھاڑی گئی تو وہ بت بھی دھڑام سے زمین پر گر پڑا! پھر اینٹوں کا معائنہ کیا گیا تو البیرونی کا تجزیہ سوفیصد صحیح نکلا۔

سلطان محمود غزنوی نے دنیا میں تینتیس 33 سال حکومت کی اور اس وقت کا دنیا کا شجاعت اور دنیا پر اثر و رسوخ رکھنے والا دوسرے نمبر کا بادشاہ تھا۔ پہلے نمبر پر چنگیز خان تھا دوسرے نمبر پر محمود غزنوی تھا تیسرے نمبر پر سکندر یونانی تھا چھوتھے پر تیمور لنگ تھا اور یہ دوسرے نمبر کا بادشاہ تھا سلطان محمود غزنوی۔ 410 ہجری میں سلطان محمود غزنوی کی وفات ہوئی اور دنیا پر تینتیس سال حکومت کی ہے یہ واقعہ سچا اور انفرادی حیثیت رکھتا ہے کہ 1974 میں شہر غزنوی میں زلزلہ آیاجس سے سلطان محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی اور مزار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم نے دوبارہ مزار کی تعمیر کی اور قبر کو مرمت کروایا۔ تعمیر کے مقصد کے لئے قبر کو پورا کھول دیا گیا کیونکہ قبر نیچے تک پھٹ گئی تھی جب قبر کو کھولا گیا تو قبر کے معمار اور قبر کی زیارت کرنے والے حیران رہ گئے کہ قبر کے اندر سے ہزار سال سے مرے ہوئے سلطان محمود غزنوی کے تابوت کی لکڑی صحیح سلامت ہے ،سب لوگ حیران اور ورطہ حیرت کا شکار ہوگئے کہ ہزار سال گزرنے کے باوجود تابوت صحیح سلامت ہے، حکام نے تابوت کو کھولنے کا حکم دیا ، جس آدمی نے کھولا وہ پلٹ کر پیچھے گرا اور بیہوش ہوگیا  جب پیچھے کھڑے لوگوں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ سلطان جو تینتیس سال حکومت کرکے مرا اور مرے ہوئے ہزار سال گزر چکے ہیں وہ اپنے تابوت میں ایسے پڑا تھا جیسے کوئی ابھی اس کی میت کو رکھ کے گیا ہے اور اس کا سیدھا ہاتھ سینے پر تھا الٹا ہاتھ اور بازو جسم کے متوازی سیدھا تھا اور ہاتھ ایسے نرم جیسے زندہ انسان کے ہوتے ہیں اور ہزار سال مرے ہوئے بیت چکے ہیں یہ اللہ تعالیٰ نے ایک جھلک دکھائی کہ جو میرے محبوب کی غلامی اختیار کرتے ہیںوہ اللہ کے دربار میں کامیاب ہو کر پیش ہو ںگے۔زندگی مختصر ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے وقت کے آگے طاقت ور سے طاقت ور بادشاہ کمزور اور بے بس ہے وقت کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن وقت پر جس شخص نے اللہ کی مخلوق کی بہتری، بھلائی اور اللہ کی خوشنودی کو مقدم رکھا وہی شخص مرنے کے بعد بھی لافانی ہے۔مآخذ ومراجع(تاریخ فرشتہ،سلطان محمودغزنوی کے 100 قصے، تاریخ ابن خلدون)