اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت ہی کیا ہے؟ امور خارجہ سے لے کر معیشت تک اس قوم کی رہنمائی کے لیے جب وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسی شہرہ آفاق وزارت موجود ہے جو اس بات پر قدرت رکھتی ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کی ضد میں صرف عیدوں پر ہی نہیں، ولیمے کی تقاریب میں بھی جب اور جہاں چاہے چاند چڑھا دے تو اب وطن عزیز میں کسی اور ادارے کا کیا کام؟ ذرافردِ جرم پڑھیے جو اسلامی نظریاتی کونسل کے خلاف جاری فرمائی گئی۔ارشاد ہوا: ’’ آج تک مذہبی طبقات کی سوچ کو اسلامی نظریاتی کونسل سے کوئی رہنمائی نہیں ملی، ایسے اداروں پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کا جواز میری سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔ نقص فہم کا کمال ہے کہ آدمی اسلامی نظریاتی کونسل سے یہ شکوہ کرنے بیٹھ جائے اس نے آج تک مذہبی طبقات کی سوچ کو رہنمائی فراہم نہیں کی۔آئین نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ایسی کوئی ذمہ داری سونپی ہی نہیں ۔ نظریاتی کونسل کا دائرہ کار اور اس کی ذمہ داری کی نوعیت بالکل مختلف ہے اور وہ آئین میں درج ہے۔سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر بھی آئین کی متعلقہ شقوں کا مطالعہ فرمایا جا سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 230میں طے کر دیا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا دائرہ کار کیا ہو گا۔ اس میں ’’ مذہبی طبقات کی سوچ ‘‘ کو رہنمائی فراہم کرنے کا کہیں ذکر نہیں۔آرٹیکل 230 کے مطابق کونسل کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کو تجاویز فراہم کرے تا کہ وہ ایسے اقدامات کر سکیں کہ عوام کو انفرادری اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق گزارنے میں مدد ملے ۔کونسل کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ جب کبھی حکومت ، صدر ، گورنر یا قومی یا صوبائی اسمبلی اس سے سوال پوچھیں کہ فلاں معاملہ اسلام سے متصادم تو نہیں یا وہ اس کے مطابق ہے یا نہیں تو وہ اس معاملے میں رہنمائی کرے۔کونسل کی تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے طور پر ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لیتی رہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات سے متصادم تو نہیں اور اگر وہ کسی قانون کی شق کی بابت ایسا سمجھے تو اس کی ذمہ داری ہے وہ ور اس ضمن میں حکومت کو سفارشات پیش کرے۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے ، اس نے بہت سے قوانین پر اپنی رائے دی ہے ، آپ اس رائے سے اتفاق اور اختلاف کر سکتے ہیں لیکن کونسل کی جو بنیادی ذمہ داری تھی وہ بہرحال اس نے ادا کی۔حکومت نے اس کی کسی رائے کو قبول کیا یا ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ، اس کا جواب نظریاتی کونسل نے نہیں حکومتوں نے دینا ہے۔لیکن اسلامی نظریاتی کونسل سے کسی کو یہ شکوہ ہے کہ اس کی وجہ سے مذہبی سوچ کو رہنمائی فراہم نہیں ہوئی تو اسے معلوم ہونا چاہیے علم کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار نہیں۔ کونسل نے اپنے دائرہ کار کا تعین سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی روشنی میں نہیں کرنا بلکہ آئین کے آرٹیکل 230 کی روشنی میں کرنا ہے۔ یہ درست کہ ہر آدمی اپنی افتاد طبع کا اسیر ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امور ریاست کو کار طفلاں ہی سمجھ لیا جائے۔آئینی اداروں کے بات کرتے ہوئے وزراء کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ لیکن ہمارے ہاں ایک عجیب رسم چل پڑی ہے ، کوئی وزیر اپنی متعلقہ وزارت اور اس کی کارکردگی کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ریلوے کا وزیر احتساب کا داروغہ بنا پھرتا ہے اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر مذہب اور امور خارجہ پر قوم کو فیض یاب کر رہا ہوتا ہے ۔یعنی حضرت واعظ اپنی ذمہ داری کی بنیاد پر نہیں ، افتاد طبع کی بنیاد پر سخن آراء ہوتے ہیں۔ہر وزیر محترم دنیا کے ہر معاملے میں قوم کی رہنمائی فرمانے پر تلا ہوا ہے لیکن اس کی اپنی وزارت جو اس کا اپنا بنیادی فریضہ ہے اس پر بات کرنے کی فرصت نہیں۔عمران خان کے حصے میں ایسے وزیر آئے ہیں جو دنیا کے ہر معاملے میں بات کر سکتے ہیں ، چپ کسی معاملے میں نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ تضادات کا ایک دفتر کھلا ہے۔ برادرم علی محمد خان نظریاتی کونسل کی تعریف فرما رہے ہوتے ہیں اور جناب فواد چودھری کو اس ادارے کا جواز ہی سمجھ نہیں آ رہا ہوتا۔ کیا فواد چودھری اس باب میں رہنمائی فرمائیں گے کہ اخراجات اور کارکردگی کی بنیاد پر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت برقرار رکھنے کا کوئی جواز ان کی سمجھ میں آتا ہے؟بلکہ ایک وزارت ہی کیا ، پوری پارلیمان کے باقی رہنے کا کیا جواز ہے؟ ایک دن کے اجلاس پر چار سو لاکھ کے قریب برباد کیے جاتے ہیں اور وہان نہ وزیر اعظم تشریف لاتے ہیں نہ وفاقی وزراء وہاں تشریف لانا مناسب سمجھتے ہیں، کبھی نصف گھنٹے میں کورم ٹوٹ جاتا ہے اور گاہے ناتراشیدہ جملے بازی کے بعد اکابرین گھر وں کو لوٹ جاتے ہیں۔یہ کارکردگی اور ایک دن کا چار سو لاکھ ۔کیا وزیر محترم کی سمجھ سے یہ بھی بالاتر ہے؟ سلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے۔ ایسے ہی جیسے پارلیمان ایک آئینی ادارہ ہے۔ایک وفاقی وزیر کو کم از کم اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ جو ادارہ آئین پاکستان کی روشنی میں قائم ہو اور جسے آئینی تحفظ حاصل ہو اس کے جواز پر سوال اٹھانا کسی حکومتی عہدیدار کو زیب نہیں دیتا۔اس میں بہتری درکار ہے تو مناسب طریقے سے اس پر بات ہونی چاہیے لیکن یوں اسے سینگوں پر لے لینا کہ اس کا جواز ہی سمجھ سے باہر ہو جائے ،مناسب نہیں۔ ’’ جید لوگ‘‘ اس ادارے میں ضرور لائیے لیکن موجود اہل علم کی تذلیل مناسب رویہ نہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز ایک صاحب علم ہیں۔ان کے رفقاء میں بھی اہل علم موجود ہیں۔وہ مذہب کے باب میں اس سے زیادہ ’’ جید ‘‘ ہیں جتنے وزیر موصوف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے باب میں ہیں۔علم کی دنیا جن کے لیے اجنبی نہیں وہ جانتے ہیں ان میں سے بعض حضرات کا علمی مقام کیا ہے ۔ بہتری کی گنجائش یقینا ہو گی اس سے انکار نہیں لیکن اراکین کی تعیناتی کا بہر حال ایک آئینی نظام اور طریق کار موجود ہے۔ دستور پاکستان میں باقاعدہ لکھ دیا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بننے کی اہلیت کا پیمانہ کیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل وفاقی کابینہ نہیں جہاں ایک شام آپ کے پاس وزارت اطلاعات ہوتی ہے اور اگلے روز آپ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کمالات دکھا رہے ہوتے ہیں اور کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وزارت تعلیم کے منصب پر فائز صاحب کی اپنی تعلیمی قابلیت کیا ہے۔ اداروں میں بہتری لانے کی خواہش منطقی ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کیا وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا ایک ذیلی ادارہ ہے وزیر محترم کو جس کی تشکیل نو کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔نظریاتی کونسل پی ٹی وی نہیں جہاں ’’ جید لوگوں ‘‘ کو بھاری بھرکم مذہبی پروگرام عطا فرمانے کے لیے آدھے گھنٹے ہنگامی اجلاس بلا لیا جاتا ہے اور حکم دیا جاتا ہے بھاری بھرکم پروگرام شروع کرنے کی تیاری کی جائے ۔نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جس کی تشکیل نو تو بڑی دور کی بات ہے اس کے ڈھانچے میں معمولی سی تبدیلی کے لیے بھی آئین میں تبدیلی لانا پڑے گی اور آئین میں تبدیلی کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔نظریاتی کونسل میں اگر ہم خیال ’’ جید لوگوں‘‘ کو لانے کی بے تابی ہے تو آئینی سکیم کے تحت اراکین کی مدت تعیناتی ختم ہونے کا انتظار تو کرنا ہو گا۔کھڑے کھڑے حکم نہیں سنایا جا سکتا۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی افادیت اپنی جگہ لیکن امور ریاست ولیمے کی تقریب نہیں ہوتے۔