پہلی عید ایسی گزری کہ جس میں دل رفتگاں کی یاد سے زیادہ کشمیریوں کی حالت زار سے بوجھل تھا۔ اگرچہ ہم سینکڑوں میل کے فاصلے پر اپنے اپنے گھروں کی محفوظ پناہ گاہوں اور اپنے دیس کی آزاد فضائوں میں عید قربان منا رہے تھے لیکن دل میں ایسا ملال تھا‘ایسی اداسی تھی عید مبارک کا فون تک کسی کو نہ کیا۔ اس گہری اداسی میں یوں لگتا تھا کہ مظلوم اور ستم زدہ کشمیر میرے دل میں آباد ہو گیا ہو۔ رہ رہ کر یہی خیال دامن گیر ہوتا کہ خدایا‘ کشمیر کے ستم کدے میں عید کیسی ہو گی۔ اللہ: ستم رسیدہ مظلوم کشمیریوں کی قربانیوں کو قبول کر اور اس خطے کی امن‘ آزادی کے اسباب پیدا کر۔ اس معاملے سے جڑے اہل اختیار میں احساس کی رمق جگا دے۔ امت مسلمہ تو بس ایک سراب کا نام ہے۔ مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔ اس راکھ میں کوئی چنگاری پیدا کر دے۔ لیکن دعا کی قبولیت کے لئے بھی عمل کے اسباب چاہئیں نام نہاد امت مسلمہ پر نگاہ دوڑائیں تو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ معاشی طور پر کمزور مسلمان ملک تو ویسے ہی کچھ کہنے اور کرنے کے قابل نہیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ معاشی طور پر خوشحال مسلم ممالک علم سائنس اور ٹیکنالوجی میں کہیں پیچھے رہ جانے والی مسلم امہ اب محض ایک سراب‘ ایک راکھ کا ڈھیر ہے! یہ محض اتفاق ہے کہ ایک طرف دنیا بھر سے 30لاکھ مسلمان حج کر رہے تھے اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارت مظلوم کشمیریوں پر تاریخ کا بدترین جبر کر رہا تھا اور یہ ظلم و جبر ابھی جاری ہے۔ لیکن خطبہ حج میں ان مظلوم کشمیریوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ دنیا کے مسلم ملکوں کے نمائندوں پر مبنی تنظیم او آئی سی کا وجود بے معنی ہے۔ اس کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔ ایک بھارتی تجزیہ کار کا مضمون پڑھتے ہوئے چونک گئی جب اس نے مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی(OIC)کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے (Oh I See)او آئی سی۔ کہا شاید ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے خود بھی اس طرح واقف نہ ہو جتنا واقف ہماری کمزوریوں سے ہمارا دشمن ہے۔ مسلم ممالک عالمی طاقتوں کے درویوزہ گر ہیں۔ اسی لئے تو سچائی‘ اصول ضمیر اور احساس انہی طاقتوں کے پاس گروی رکھ چکے ہیں۔ کشمیری تاریخ کا بدترین ظلم سہہ رہے ہیں اور افسوس کہ ہمارے پاس ان کے لئے جذباتی نعروں ‘ جذباتی تقریروں اور جذباتی تحریروں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔14اگست کو پاکستان کے قیام کی 72ویں سالگرہ منائی گئی۔ احساس زیاں کچھ اور بڑھ گیا آزادی کے لئے شکر کا احساس بھی اس بار پہلے سے کہیں زیادہ تھا14اگست کا دن آزادی امن اور تحفظ کا استعارہ ہے اور بدقسمتی سے اسی دن سڑکوں پر وہ ہلڑر بازی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ سائلنسر نکال کر موٹر سائیکل اڑانے سگنل توڑنے۔ ٹریفک کے تمام ضابطے پامال کرنے‘ پٹاخے چھوڑنے اور خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنے جیسے گھٹیا کام کرنے کو منچلوں کی ٹولیاں سڑکوں پر ایسے گھومتی پھرتی ہیں جیسے بلوائیوں کا حملہ ہو گیا ہو۔ شریف شہری ان سے اپنی عزت اور جان بچاتے پھرتے ہیں۔ سڑکوں پر باقاعدہ پولیس جگہ جگہ ناکے لگا کر امن و امان کی تباہی پھیرنے والے ٹولوں کو پکڑتی ہے۔ شام کے بعد شریف لوگوں کا گھر سے نکلنا عذاب ہوتا ہے۔ خدانخواستہ کوئی دشمن تو نہیں گھس آتا لیکن صورت حال کچھ اس سے کم بھی نہیں ہوتی کہ پاکستانیوں کو پاکستانیوں سے بچانے کے لئے پولیس کے ناکے گشت اور چھاپے بڑھ جاتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی اور قوم اپنی آزادی کا دن اس بے ڈھنگے طریقے سے مناتی ہو۔ اور اس بار اس بے ہنگم جشن آزادی کو باجوں کا تڑکا الگ سے لگا ہوا تھا کینال روڈ سے گزرے تو باجے بیچنے والے اور باجے بجانے والے قطار اندر قطار دکھائی دیے۔ اللہ کے بندو! پہلے ہی ٹریفک کا شور‘ گاڑیوں کے ہارن کیا کم ہیں کہ باجے بھی بجانے لگ جائو۔ اور ایسی کریہہ آواز سمع خراشی کرتی ہوئی۔ سچی بات اس قوم کی کامن سینس پر ماتم کرنے کو دل کیا۔ پھر یہی لوگ تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔! سڑکوں پر بے سمت نوجوانوں کی ٹولیاں جشن آزادی مناتی ہوئی ہر سال دیکھتی ہوں تو کڑھتی ہوں۔ اس پر اکثر لکھا بھی کہ ان بے سمت نوجوانوں کی توانائیوں کو مثبت سمت میں چینلائز کرنے اور استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔72سالوں میں کوئی ایسی قیادت اس قوم کو میسر نہیں آ سکی جو ہمیں آزادی کا دن منانے کا سلیقہ ہی سکھا دیتی اور اب تو اس قوم کو سکھانے پڑھانے کا فریضہ خیر سے میڈیا ادا کر رہا ہے۔ سو کچھ برسوں سے آزادی کا دن منانے کی جو نئی روایت پڑی ہے وہ یہ کہ ہرے اور سفید کپڑے پہن کر جھنڈیاں سر پر باندھ کر بچوں کی سلفیاں بنا کر چینلز کو بھیجیں اور جشن آزادی منائیں بعدمیں یہی جھنڈیاں کوڑے کے ڈھیر پر پڑی بھی نظر آتی ہیں۔ کل شہر میں ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ایک فیملی پر نظر پڑی والد سے لے کر والدہ اور چھوٹے منے تک سب ہرے اور سفید رنگ میں ملبوس تھے۔ پورا خاندان یوں جشن آزادی منا رہا تھا۔ جوس پی کر خالی ڈبے پیارے پاکستان کی سڑکوں پر بلا تامل بکھیرے جاتے۔ بچے چپس کھا کر اس کے خالی لفافے ہوا کے دوش پر پھینک دیتے۔ بہت دل چاہا کہ گاڑی سے اتر کر ان کو حب الوطنی اور اس کے تقاضوں پر لیکچر دوں۔ بچوں کا مگر کیا قصور۔ انہیں سکھایا ہی نہیں گیا کہ وطن سے پیار ہے تو اس کے گلی کوچوں سے اپنے گھر کے آنگن جیسا پیار کرو۔آزادی کا دن منانا ہے تو اس روز ٹریفک کے ضابطوں اور قوانین کی پابندی روٹین سے زیادہ کرو اپنے ہم وطنوں کو اپنے وجود سے عدم تحفظ کا احساس مت دلائو۔ یوم آزادی پر ہری جھنڈیاں لگانے سے زیادہ سرسبز پودے لگانے کی ترغیب دینی چاہیے۔ ہر خاندان اپنے حصے کے پودے لگائے اگلے یوم آزادی تک ان پودوں کی حفاظت کرے۔ اگر جشن آزادی کو پودے لگانے سے مشروط کرنے کی سرسبز روایت کی داغ بیل ڈال دی جائے تو میری ناقص رائے میں اس سے بہتر کارآمد طریقہ آزادی کے مہنے کو منانے کا نہیں ہو سکتا۔ ہمیں یہ سلیقہ‘ ڈھنگ اور ترتیب سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ فی الحال تو ہم حُسن سے عاری قوم ہیں۔