عطا کا لمحہ روشنی کی صورت دل کو منور کر جاتا ہے اور ایک خوشبو کی صورت باطن کو مہکا جاتا ہے۔ سوچیں تخیل کے کاندھے پر جا بیٹھتی ہیں۔ ایسی ساعت تخلیق کار کو کار دنیا سے کاٹ کر کہیں اور جوڑ دیتی ہے۔ تب وہ اپنی کم مائیگی پر مسکراتا ہے اور سوچتا ہے کہ ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘آج میں آپ کو سیاست کے خارزار میں نہیں گھسیٹوں گا۔عجب اتفاق ہوا کہ ایک کال کے جواب میں نمبر ری ڈائل کیا تو دوسری طرف سلیم کوثر صاحب تھے۔صبح کی تازگی بڑھ گئی‘ ایک لطافت کا احساس ہونے لگا گفتگو ہونے لگی اور نہ جانے کب اقبال ہمارا موضوع بن گیا۔ پھر انہوں نے ترنگ میں آ کر اقبال کا لازوال مطلع پڑھا: لوح بھی تو’’قلم بھی توؐ وجود الکتاب گنبد آبیگنہ رنگ تیرے محیط میں احباب ایک عاشق رسولؐ کی طرح وہ بے تابی اور بے اختیاری میں دوسرا مصرع دہرانے لگے اور کہا ’’یار!کیا بات ہے۔بندہ ایسا مصرع کہنے کی آرزو میں زندہ رہے اور اسی خواہش میں مر جائے‘‘واقعتاً اس شعر میں فن اور اظہار کا عروج نظر آتا ہے کہ کوزے میں دریا نہیں سمندر رکھ دیا گیا ہے کائنات کے حصول اور ابدی فلاح کو کس سے وابستہ کر دیا گیا ہے کہ کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔ علم الکتاب اور عمل آپؐ کی سیرت۔ سلیم کوثر صاحب فرمانے لگے یار سعد میں تو 73سال سے جہل میں رکھا گیا اقبال کو قوم پر کھولا نہیں گیا وہ بہت بڑے شخص ہیں عالمی سناریو میں انہوں نے اقبال کا شعر پڑھا اور ان کے وژن کی بات کی، کسی کے پاس اقبال کے سوال کا جواب نہیں: بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ایسا لگا کہ ہمارا دونوں کا درد ایک ہے اس کا علاج اقبال کی مسیحائی ہے۔ یہ پائے اور کھدیں کھانے والے یا گھوڑوں کو مربے کھلانے والے یا ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے کیا جانیں کہ ہمارا اصل اثاثہ قائد اور اقبال ہیں وہ دونوں ایک دوسرے سے واقف تھے اور ہم دونوں سے بے خبر۔ایک خواب دیکھنے والا اور دوسرا تعبیر بننے والا۔ہماری چشم بیمار اس دیدہ ور کو نہ پہچان سکی۔وہ خود بھی اپنے آبا کی کتابیں مغرب کی لائبریریوں میں دیکھ کر کڑھتے رہے اور وہ خود جو ایک جوہر قابل تھے صرف قوالوں کے ہاتھ میں آئے۔اگر کسی نے فائدہ اٹھایا تو ایران نے ،کہ ان کا انقلاب ہی اقبال کی فکر کا نتیجہ ہے اصل میں ایرانی ایک قوم ہے اور سوچ رکھتی ہے۔ میں نے سلیم کوثر کی طبیعت کا معلوم کیا تو ان کی آواز بیٹھ گئی کہ وہ بڑے صبر کے ساتھ بیماری سے گزر رہے ہیں۔ٹوٹتی ہوئی آواز اور بھیگے ہوئے الفاظ میں کہنے لگے’’بس میرا اللہ راضی ہو جائے اور کچھ نہیں چاہیے۔انشاء اللہ میں نے کہا۔سلیم کوثر تو ویسے ہی درویش ہیں اللہ نے انہیں بہت سی شہرت و عزت سے نوازا ہے۔ ان کے اندر بہت عاجزی اور انکساری ہے جو ان کے بھرے ہوئے باطن کا پتہ دیتی ہے اس مرتبہ پھر اقبال کی نظم قرطبہ کی جامع مسجد کے حوالے سے بات ہونے لگی کہنے لگے کہ اصل میں ہم نہیں غیر جانتے ہیں کہ اقبال ایک ایک تہذیب کا نام ہے۔اسی لئے تو اس کی چھٹی کروائی گئی تھی۔خون جگر سے جلائے ہوئے چراغ روشن روشن روشنی دیتے ہیں۔عظیم نظم کا صرف ایک شعر دیکھیے: رنگ ہو یا کہ خشت و سنگ‘چنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود اس کے بعد میں نے استفسار کیا کہ اپنے مشاغل کے بارے میں بتائیں۔ پتہ چلا کہ دوسرا نعتیہ مجموعہ طبعات میں ہے۔نام ہے ’آپ کا ہوں‘یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ’’ میں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت‘‘اہل فن اور صاحبان دل سے بہت داد پا چکا ہے۔ نعت کا تذکرہ چلا تو وہ پھر آبدیدہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ اس پر کسی کا کیا اختیار کہنے لگے: ایک آواز آ رہی ہے مجھے نعت لکھوائی جا رہی ہے مجھے ایک مرتبہ پھر اقبال کا تذکرہ ہوا کہ یہ سعادت بھی انہی کو نصیب ہوئی کہ سنت کی عمر پائی اور چلے گئے۔ وہ سچ مچ عاشق رسولؐ تھے۔ویسے تو ان کا سارا کلام ہی قرآن و سنت کے دائرے میں ہے اور فلسفہ اسلام ان کے لئے فلسفہ حیات ہے اور نظریے کا تحرک زندگی بنتا ہے نعت کا مطلع سنایا: جس طرح ملتے ہیں لب نام محمد کے سبب کاش ہم مل جائیں سب نام محمد کے سبب پھر کوثر صاحب نے اپنا ایک شعر پڑھا: اس کی خوشبو سے مہکتا ہے مرا گھر آقاؐ آپ کے شہر سے ایک آدمی آیا ہوا ہے پھر بتانے لگے کہ اب ان کا نیا شعری مجموعی’’آپؐ کا ہوں‘‘ آ رہا ہے۔ انشاء اللہ مجھے بھجوائیں گے۔ سلیم کوثر صاحب ہم سے سینئر یعنی امجد اسلام امجد‘عدیم ہاشمی اور خالد احمد کے ہمعصروں میں ہیں وہ ایک خوبصورت آدمی ہیں۔ان کے شعر کا بانکپن اور گداز ان کی فکر اور سوچ ہے جو ہماری اعلیٰ اقتدار و روایات سے جنم لیتی ہے۔ وہ جب لاہور آئے تو ہم نے ادبی بیٹھک میں انہیں خوب سنا۔ جب میں کراچی گیا تو سحر انصاری صاحب انہیں ملانے ٹی وی سٹیشن لے گئے۔کبھی کبھار وہ فون کرتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے۔آخر میں میرا دل چاہتا ہے کہ ایک نعت آپ کے ساتھ شیئر کروں کئی مرتبہ سن چکا ہوں سبحان اللہ: گل از رخت آموختہ نازک بدنی را بلبل ز تو آموختہ شیریںسخنی را گلاب نے آپؐ کے چہرے سے نزاکت کا درس لیا۔بلبل نے اپنی زبان کی شیر ینی آپؐ سے سیکھیں۔ جس نے بھی آپ کے سرخ ہونٹ دیکھے تو دل سے کہا۔ بے شک اس یمنی عقیق کو بہت ہی خوبصورتی سے تراشا گیا ہے: خیاط ازل دوختہ برقامت زیبا در قد توایں جامہ سروچمنی را ازل کے درزی یعنی اللہ نے آپ کے خوبصورت قد پر باغ کے سرو کا لباس سیا ہے از جامیٔ بے چارہ رسانید سلامے برد گہہ دربار رسولؐ مدنی را بے چاریجامی کی طرف سے سلام پہنچا دو رسول مدنی کے دربار میں۔