جن لوگوں نے 65ء کی جنگ دیکھی ہے ‘ صرف وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ طبل جنگ بجتے ہی یہ قوم کس طرح سب کچھ بھول بھال کر ایک ہو جاتی ہے۔ شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم حق پر ہوں اور جنگ ہم پر مسلط کی گئی ہو۔ آپ پاکستانی میڈیا پرسن رہے ہوں گے کہ صرف دو چار دن پہلے ہی ہمارے اہل سیاست کے درمیان کیسی جوتم پیزار تھی۔ کیسی کیسی زبان استعمال ہو رہی تھی‘ ایک دوسرے پر کیسے کیسے الزام لگ رہا تھا اور اب سب یک زبان ہو کر دشمن کو للکار رہے ہیں آپ کسی کو اچانک جالیں اور پوچھیںوزیر اعظم نے کیسی تقریر کی ہے وہ عمران خاں کا شدید دشمن بھی ہو گا تو یہی بتائے گا کہ ان کا موقف بالکل درست ہے‘ شہباز شریف‘ خورشید شاہ ‘ خواجہ آصف‘ اسفند یار ولی‘ مولانا فضل الرحمن کسی کی تقریر میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ قومی حکمت عملی میں ہم آہنگی کی ایک نشانی یہ ہوا کرتی ہے کہ اس کے دفتر خارجہ اور عسکری ترجمان کی زبان ایک ہو جائے ایسے ہنگامی حالات میں یہ بات بہت معنی خیز ہوا کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ایک ایک ادارہ اور ہر مکتب فکر یک زبان ہے اور دل سے چاہتا ہے کہ دشمن کے گھمنڈ کو توڑا جائے۔ ہو سکتا ہے ‘ ہماری بھی کوئی کوتاہی ہو مگر بھارت ایک تسلسل کے ساتھ اپنی سرزمین پر ہونے والے ہر واقعے کے ڈانڈے پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ بدقسمتی سے حالات بھی ایسے رہے ہیں کہ دنیا بھارت کے نکتہ نظر کو تسلیم نہ بھی کرے تو کم از کم ہماری بات مانتی ہوئی دکھائی نہ دیتی تھی۔ ہر واقعے کے بعد ہم معذرت خواہانہ پسپائی کا مظاہرہ بھی کرتے تھے کہ شاید اس سے امن کی کوئی صورت حال نکل سکے۔ بمبئی کے بعد ہم نے اپنے ہاں حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا۔ بھارت نے اس سانحے کے زندہ بچ جانے والے مبینہ مجرم کو پھانسی تو دے دی مگر ہمیں اس سے تفتیش نہ کرنے دی۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے وقت بھی الزامات ہم پرلگے۔ مگر جب سزا سنائی گئی تو ایک کشمیری نوجوان کے بارے بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے حد کر دی گویا یہ تسلیم کیا کہ جرم تو ثابت نہیں ہوتا مگر مفاد عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ اسے پھانسی دی جائے۔ ایک نہیں‘ اس عرصے میں کئی واقعات ہوئے‘ سمجھوتہ ایکسپریس کا سانحے پر تو بہت کچھ آ چکا ہے۔ ہم نے ہر ہر طرح سے کوشش کی کہ بھارت کی دل جوئی کی جائے۔ پٹھانکوٹ پر تو گوجرانوالہ میں مقدمہ تک درج کر لیا گیا۔ بھارت نے ایک زمانے میں کولڈ سٹارٹ کا نعرہ لگا رکھا تھا۔ بات بات پر دھمکی دیتا تھا کہ ہم اچانک سٹرائیک کر کے پاکستان کے اہم تزویراتی اہداف کو نشانہ بنا کر اسے مفلوج کر سکتے ہیں۔ بات بات پر ذرا لانا میری کرولی ‘ والا معاملہ تھا۔ اب یہی حال سرجیکل سٹرائیک کا تھا۔ پتا نہیں کہاں سے یہ لفظ سن لیا تھا اور اس کا شوق پال لیا تھا۔ ایک زمانے میں تو امریکی بھی یہ لابی کرتے پھرتے تھے کہ بھارت کو یہ شوق پورا کر لینے دیں۔ وہ پاکستان کی حدود کے اندر ایک آدھ ہوائی حملہ کرلے تو آپ خاموش رہیں۔ اس کا شوق پورا ہو جائے گا اور غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ آپ آگے سے کچھ نہ بولتے۔ اس کے کئی شواہد موجود ہیں۔ خورشید محمود قصوری تو اپنی کتاب میں لکھ چکے ہیں کہ کیسے امریکی ان سے بات کر کے اس بات کا اندازہ کرنا چاہتے تھے کہ پاکستان کا ردعمل کیا ہو گا۔ وہ جس سے پوچھتے یہی جواب ملتا کہ پاکستان اس پر خاموش نہیں بیٹھے گا اور ترکی بہ ترکی جواب دے گا بلکہ ان کا شوق تو یہ تھا کہ مریدکے پر حملہ کرنے دیا جائے جہاں جماعتہ الدعوۃ (یا لشکر طیبہ) کا مدرسہ تھا اور بقول ان کے تربیتی کیمپ تھا ان کو بتایا گیا‘ اس کا ردعمل پاکستان کی مسلح افواج کی طرف سے یقینا شدید ہو گا۔ مگر کیا کریں‘ بھارتی حکمرانوں کا یہ شوق ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ پاکستان اور بھارت دو تین بار سرحدوں پر مورچہ زن ہو چکے ہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے میں بھی اور پرویز مشرف کے زمانے میں بھی۔ ضیاء الحق تو بہت زیرک آدمی تھے۔ انہوں نے بھارت کی سرزمین پر کھڑے ہو کر بھارتی وزیر اعظم کو بہت خطرناک پیغام دیا تھا۔ چپکے سے کہا تھا کہ ہم مٹ گئے تو کوئی بات نہیں ‘ پچاس مسلمان ملک روئے زمین پر پھر بھی باقی ہوں گے مگر ہم تمہاری زمین پر تہذیب کے سب نشان دیکھتے ہی دیکھتے مٹا دیں گے۔ تمہارے سارے شہر‘ صنعتی مراکز سب کچھ ملیا میٹ ہو جائیں گے۔ دنیا میں ہندو تہذیب کا مرکز صرف یہ ایک ملک ہے۔ پھر اس تہذیب کا نام صرف کتابوں میں باقی بچے گا۔ اس وقت تک ہم علانیہ ایٹمی طاقت نہیں بنے تھے۔ بھارت سمجھ گیا کہ مطلب کیا ہے۔ ہمارے ایسے ہی پیغامات نے کئی بار جنگ کو ٹالا ہے۔ ایک بار بھارت کو شوق چرایا کہ کولڈ سٹارٹ کی طرح وہ ایک حرکت اور کر سکتا ہے۔ سکھر کے قریب پاکستان پر حملہ کر کے اسے دو حصوں میں بانٹ سکتا ہے۔ یہاں سے ریلوے لائن اور مین سڑک زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ پاکستان کا کمزور حصہ soft bellyہے۔ اس نے براس ٹیکس کے نام سے فوجی مشقیں کیں۔ تو اپنی 12ڈویژن فوج اس بارڈر پر جمع کر دی۔ اس زمانے میں یہ خیال بھی عام ہوا کہ شاید بھارت مشقوں کے نام پر سچ مچ حملہ کر دے۔ پاکستان کے اندر ایک لابی اس خوف کو عام کر رہی تھی۔پاکستان نے اس موقع پر صرف ایک خاموش جواب دیا۔ اپنے آرمز ڈویژن کو چناب راوی سیکٹر میں سرحد کی طرف بڑھا دیا۔ بھارت سمجھا کہ پاکستان مشقوں کا فائدہ اٹھا کر کشمیر کو بھارت سے کاٹنا چاہتا ہے۔ ساری مشقیں ختم کر کے بھارت نے اپنی 12ڈویژن فوج سمیت کراس سیکٹر کی طرف دوڑ لگائی۔ پاکستان نے بتا دیا کہ اگر تم راجستھان کی طرف سے حملہ کا سوچو گے تو ہم جموں کی طرف سے تمہیں جواب دیں گے۔ اللہ نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ اس نے جب بھی اپنی بدباطنی سے کام لیتے ہوئے کوئی سازش کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے کوئی ایسا جواب آیا ہے جس کا بھارت کے پاس کوئی توڑ نہ تھا۔ ایک بار اسرائیلی طیارے کشمیر پہنچائے گئے تھے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کو تباہ کرنا مقصود تھا۔ اسرائیل کو صرف اتنا پیغام گیا کہ تم ہمارے میزائلوں کی رینج میں ہو۔ وہ بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر بھاگا۔ اسے بھی پاکستان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہے۔ غالباً 71ء کی جنگ کی بات ہے کہ جب پاکستانی پائلٹ اسرائیل کے خلاف اردن یا شاید شام کی طرف سے برسر پیکار تھے ہمارے شہرہ آفاق ہیرو ایم ایم عالم بھی ان دنوں وہاں موجود تھے۔اسرائیلیوں نے صاف کہا کہ یوں لگتا تھا کہ یہ طیارے پاکستان ایئر فورس کے پائلٹ اڑا رہے ہیں۔ ایسی مہارت اور کسی میں کہاں۔ اللہ نے ہمیشہ ہماری عزت رکھی ہے۔ گزشتہ باربھارت نے یہی سرجیکل سٹرائیک کا شوشا چھوڑا اور دنیا بھر میں پروپیگنڈہ کیا۔ دنیا بھی اتنی کمینی ہے کہ ایک طرف کہتی بھارت نے ثبوت تو دیے نہیں۔ دوسری طرف یہ راگ الاپتی کہ یہ جو بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کئے ہیں تو اس کا مطلب یوں ہوا۔ بار بار یہ لفظ دہرایا جاتا۔ پاکستان وضاحت کرتا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔ کچھ ہوتا تو پاکستان جواب دیتا۔ اس بار جانے انہیں کیا سوجھی کہ اس شوق میں پاکستانی علاقے میں گھس آئے۔ ان کا ملبہ بھی پاکستانی سرحد کے اندر گرا پروپیگنڈہ کر دیا کہ ہم نے 350بندے مار دیے۔ گویا خود اعتراف کر لیا کہ ہم نے سرحد پار کی ہے۔ یہ الگ بات کہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ پھر بھی پاکستان کی طرف سے اس کا جواب تو بنتا تھا۔ یہ تو ضروری تھا کہ اسے بتایا جائے یہ شوق بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ بھارت کے پاس تو اپنے ’’کارناموں‘‘ کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ ہم نے تو کم از کم ایک پائلٹ دکھا دیا ہے۔ یہ کوئی خوشی کی بات نہیں۔ مگر اس نے پوری قوم کو متحرک کر دیا ہے۔ عمران خاں نے بالکل درست کہا ہے کہ جواب دینا ہماری مجبوری تھا۔ اس وقت جب میں یہ چند سطریں لکھ رہا ہوں ‘ یوں لگتا ہے پاکستانی قوم کے اعصاب پر سے ایک بوجھ اتر گیا ہے۔ جنگ جویانہ کیفیت اب بھی نہیں ہے۔ مگر یہ جذبہ ضرور موجود ہے کہ دنیا کو مودیوں جیسے موزیوں سے پاک کرنا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ جو ذرا دبا ہوا سا ہے اور جسے کشمیری نوجوانوں کی قربانیوں نے زندہ کیا تھا۔ اب پوری دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح آ گیاہے۔ دنیا کو سوچنا ہے کہ آیا وہ اس جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے۔ جی ہاں۔ یہ صرف پاک بھارت جنگ نہ ہو گی‘ ماہرین بتاتے ہیں اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔ ہم نے اپنے کمان اینڈ کنٹرول اتھارٹی کو بھی چوکس کر دیا ہے۔ ہمارے فوجی ترجمان نے پوچھا ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ آپ بھی سمجھ گئے ہیں نا! بھارت کو بھی سمجھ آ جانا چاہیے آ گئی ہو گی۔